سوال

میت کی تعزیت  کے لیے لوگ بیٹھتے ہیں، جب بھی کوئی  آدمی باہر سے آتا ہے، سب ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرتے ہیں، کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج پایا جاتا ہے کہ کسی آدمی کی وفات کے موقعہ پر لوگ تعزيت اور فاتحہ خوانی کے لیے اکٹھے ہوجاتے ہیں،حالانکہ یہ محل نظر ہے؛ سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

“كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ” (مسند احمد :6905)

ہم میت کو دفن کر دینے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور( ان جمع شدہ لوگوں کے لیے) کھانا پکانے کو نوحہ میں سے شمار کرتے تھے ۔

  • پھر مروجہ طریقے کے مطابق ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں ، ہمارے مطابق  وہ اس مسئلہ میں صریح نہیں ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
  • پہلی دلیل:

ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم ہو جانے کے بعد لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کچھ لوگوں کایہ کہنا تھا کہ اس کے گناہ نے اسے ہلاک کر دیا اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ ماعز سے بہتر بھی بھلا کسی کی توبہ ہوگی ، کہ اس نے اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کر دیا ۔

«ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ»، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ». (صحیح مسلم :1695)

پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، آپﷺ  نے سلام کہا ،پھر بیٹھ کر فرمانے لگے :ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو، تو سب نے کہا : اللہ ماعز بن مالک کو معاف فرمائے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک امت میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو انہیں کافی ہو جائے گی ۔

یعنی رسول اللہﷺ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ کو حل فرما دیا کہ اسکی غلطی نے اسے ہلاکت میں نہیں ڈالا بلکہ اسکی توبہ اعلی ترین توبہ ہے لہذا تم بھی اسکے لیے استغفار کرو تو صحابہ بلا تاخیر فورا ہی کہہ دیا کہ اللہ اسے بخشے ۔

اس حدیث میں نہ تو مروجہ اجتماعی دعا  کا ثبوت ہے کہ ایک شخص دعا  کروائے اور باقی سب اس کی دعا  پر آمین کہیں، اور نہ ہی ہاتھ اٹھانے کا کوئی اشارہ ہے، اور نہ ہی میت کے گھر اکٹھ کا کوئی تذکرہ ۔ جبکہ اسکے برعکس حدیث مبارکہ میں یہ بات واضح ہے کہ جب لوگ کسی فوت شدہ کا تذکرہ کریں تو اہل بصیرت پر لازم ہے کہ لوگوں کو اسکے لیے دعا ئے مغفرت کا کہیں ۔ اور اس حدیث پر بحمد اللہ تعالی تمام تر اہل الحدیث علماء وعوام کا عمل ہے ۔ کہ وہ بالکل اسی طرح مختصر الفاظ میں دعا ئے مغفرت کر دیتے ہیں، جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی ۔اور یہ کام تعزیت کے وقت بھی ہوتا ہے اور جب بھی اسکا ذکرِ خیر ہو اس طرح کے دعائیہ جملے کہے جاتے ہیں ، مثلا : اللہ اس پر رحم فرمائے ، اللہ بخشے ، وغیرہ ۔اور اس قسم کے دعا ئیہ کلمات ہاتھ اٹھائے بغیر کہے جاتے ہیں ۔ اور سبھی کہتے  ہیں یا پھر کسی ایک کے کہنے پر باقی آمین کہہ کر اس دعا  میں شامل ہو جاتے ہیں ۔

  • دوسری دلیل:

ابو عامر رضی اللہ عنہ غزوہ اوطاس کے امیر تھے ،انہیں تیر لگا جس سے وہ نڈھا ل ہوگئے تو انہوں نے ابو موسی  (جن کا نام عبد اللہ بن قیس ہے) رضی اللہ عنہ کو کہا کہ نبیﷺ  کو میرا سلام کہنا اور میرے لیے دعا ئے مغفرت کی درخواست کرنا ، اسکے کچھ ہی دیر بعد وہ خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ ابو موسی (عبد اللہ بن قیس) رضی اللہ عنہ جب نبیﷺ  کے پاس گئے  تو ابو عامر رضی اللہ عنہ کی خبر دی اور انکے لیے دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش فرمائی ،تو نبی کریمﷺ  نے پانی منگوایا اور اس سے وضو فرمایا ،پھر کچھ دیر بعد آپﷺ  نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا:

«اللهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ،اللهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ مِنَ النَّاسِ»

’اے اللہ ابو عامر عبید کو معاف فرما دے ۔ اےاللہ قیامت کے دن اسے اپنی مخلوق میں سے بہت سے لوگوں پر فوقیت عطا فرما ‘۔

تو میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی استغفار فرما دیں تو آپﷺ  نے فرمایا : اے اللہ عبد اللہ بن قیس کے گناہ معاف فرما اور اسے روز قیامت عزت والی جگہ میں داخل فرما۔(بخاری:4323، مسلم : 2498)

اس روایت میں کوئی تعزیت کا موقع نہیں ہے بلکہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کرنا، آپ نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، اس حدیث سے تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔

  • تیسری دلیل :

جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکے گھر تشریف لے گئے آپﷺ  نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بند فرمائیں اور فرمایا کہ جب روح قبض ہوتی ہے تو آنکھیں اسکا پیچھا کرتی ہیں ۔ یہ بات سن کرانکے گھر والے چیخنے لگے تو نبیﷺ  نے فرمایا اپنے لیے بھلائی ہی مانگو، کیونکہ جوکچھ بھی تم کہتے ہو ، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپﷺ  نے فرمایا :

«اللهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ»”  (صحیح مسلم :920)

اے اللہ! ابو سلمہ کو معاف فرما دے ، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اسے بلند مقام عطا فرما ، اور اسکے بعد اسکے اہل وعیال میں اسکا خلیفہ بن جا، اوراے رب العالمین اسے اور ہمیں معاف فرما دے ، اے اللہ اسکی قبر کو کشادہ فرما اور اسکے لیے اس میں روشنی کر دے ۔

اس حدیث مبارکہ میں بھی نہ تو ہاتھ اٹھانے کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی اجتماعی دعا  کا کوئی ثبوت ۔ صرف اتنا ہے کہ آپﷺ  نے اہل میت کو جزع فزع کرنے سے منع کیا اور اچھی دعا  کرنے کا کہا اور خود بھی میت کے لیے دعا  فرمائی ۔

  • چوتھی دلیل :

جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن ان کے اہل خانہ کے پاس نہیں گئے، تین دن کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے، اور فرمایا: آج کے بعد میرے بھائی پر کسی نے رونا نہیں ہے، میرے بھائی کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ۔ انہیں لایا گیا تو وہ چوزوں کی طرح تھے، آپ نے فرمایا حجامت کرنے والے کو بلاؤ جب وہ آیا تو آپ نے اسے بچوں کے سر مونڈنے کا حکم دیا، پھر آپ نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور دعا فرمائی:

«اللَّهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي أَهْلِهِ، وَبَارِكْ لِعَبْدِ اللَّهِ فِي صَفْقَةِ يَمِينِهِ» [مسند احمد:1750]

’اے اللہ، جعفر کے اہل وعیال  میں اس کا خلیفہ بن جا، اور عبد اللہ کی تجارت میں برکت دے‘۔

اس حدیث میں  ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ذکر تو ہے، لیکن ہمارے ہاں مروجہ اجتماعی دعا والا تصور اس سے اخذ کرنا محلِ نظر ہے۔  اور بالخصوص  ہمارے ہاں پہلے تین دن میں یہ کام ہوتا ہے، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو تین دن بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر گئے تھے۔

  • مختصر یہ کہ میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا ثابت ہے ، اور یہ دعا ئے مغفرت ورحمت میت کے گھر بھی کی جاسکتی ہے اور باہر بھی ۔ دوسروں کو اس دعا کی تلقین بھی کی جاسکتی ہے، اسی طرح  کسی موقعہ پر ہاتھ اٹھا کر بھی دعا  کی جاسکتی ہے ۔ لیکن میت کے گھر جمع ہونا ، اور اجتماعی دعا  کرنے والا مروجہ طریقہ کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔ کئی ایک اہل علم نے اس کو صراحت کے ساتھ غیر مسنون   یا بدعت قرار دیا ہے۔
  • محدث مبارکپوری رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ :

’ دفن کرکےمیت کےگھر واپس آکر سب لوگوں کاہاتھ اٹھا کرسورہ فاتحہ پڑھ کریابغیر اس کےپڑھے ہوئے دعا کرناجائز ہےیانہیں؟ ‘

آپ نے  جواب دیا:

’تعزیت اورتسلی کا یہ طریقہ آنحضرت ﷺ یاصحابہ سےثابت نہیں، دعاکایہ دستور محض رسمی اورغیرشرعی طریقہ ہے۔ ‘ (فتاوی مبارکپوری:ص 461)

  • مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’’موت کے بعد میت کے لیے دعا اور صدقہ یقینا مفید ہیں۔ جنازہ خود میت کے لیے دعاء ہے لیکن صدقہ اور دعا کے لیے کسی وقت کا تعین شرعاً ثابت نہیں۔ موت کے بعد میت کے گھر بیٹھ کر عموماً دعاؤں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ہر آنے والا دعا کے لیے اس انداز سے درخواست کرتا ہے گویا وہ اپنی حاضری نوٹ کرا رہا ہے۔ ایک سیکنڈمیں دعا ختم ہو جاتی ہے۔ اور حقہ اور گپوں کا دَور شروع ہو جاتا ہے۔ اور دعا کے وقت بھی دل حاضر نہیں ہوتا۔ حالانکہ دل کی توجہ دعاکے لیے از بس ضروری ہے… میت کے لیے دعا  ہر وقت بلا تخصیص کی جا سکتی ہے۔ اور زندوں کی طرف سے یہی بہترین صلہ ہے جو میت کو دیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ سنت کے مطابق ہو۔ تعزیت کا مطلب گھر والوں کی تسکین ہے۔ دعا اگر مجلس کی بجائے انفرادًا کی جائے تو دعا کا مقصود پورا ہو سکتا ہے۔ غرض یہ تین دن کا جلسۂ دعائیہ سنت سے ثابت نہیں۔ ان مجالس میں حقہ اور بھی ان کے مقصد کو برباد کردیتا ہے۔ (الاعتصام، گوجرانوالہ ، ۲۸ دسمبر۱۹۵۱ء)

  • حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:

’عام رواج پاچکا ہے کہ مرنے والے کے لیے اجتماعی دعا بار بار کی جاتی ہے جو بھی تعزیت کے لیے آتا ہے کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کہتا ہے کہ دعا کیجیے اور تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ حرام ہے ؟ بدعت ہے ؟ وضاحت فرمادیں۔‘

آپ نے فرمایا:

’میت کے لیے دعا کرنا بلاشبہ ثابت ہے لیکن ہمارے ہاں موجودہ طریقہ کار ثابت نہیں۔  یعنی دعا کے لیے مجلس یا تعزیت وغیرہ کے لیے مجلس قائم کرنا بھی ثابت نہیں،  لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے‘۔   (فتاوى ثنائیہ مدینہ: 1/214)

عالمِ اسلام کی معروف  فتوی کمیٹی ’اللجنۃ الدائمۃ‘  کو پاکستان سے کسی نے اس حوالے سے  ایک تفصیلی سوال بھیجا، جس کے جواب میں  انہوں نے مروجہ  ’اجتماعی دعا‘ کو بدعت قرار دیا ہے۔

هذا ما عندنا، والله أعلم بالصواب، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ