سوال

دکان میں جو مال تجارت ہے،  اس کی زکاة کیسے ادا کی جائے گی ؟وضاحت کر دیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • اموالِ تجارت کی زکاۃ میں قیمتِ فروخت شرعاً معتبر ہوتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی زکاۃ کا سال جس دن مکمل ہوتا ہے، اس دن دوکان میں جتنی اشیاء موجود ہوں ان کی اس دن کی قیمتِ فروخت کا حساب کرکے کل مالیت کا اڑھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔  نیز  اگر بھاؤ تاؤکی وجہ سے قیمتِ فروخت مختلف ہوتی ہو، تو اس صورت میں دوکان دار جس قیمت پر عموماً فروخت کرتا ہے، اس قیمت کا اعتبار کرکے کُل سرمایہ کا  حساب کیا جائے گا۔
  • اور عملی طور پر زکاۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ:

1۔ سامانِ تجارت  میں سے جو کچھ اسکے پاس ہے اسکی موجودہ  مارکیٹ کے حساب سے قیمت لگائے۔

2۔ جو نقدی اس کے پاس ہے چاہے اسکو تجارت میں استعمال کیا ہو یا نہ کیا ہو اسکو اسکے ساتھ ملا دے ۔

3۔ جو اس نے لوگوں سے قرض لینا ہے اسکو بھی ساتھ جمع کر دے۔بشرطیکہ اس کے ملنے کی امید ہو، خواہ دیر سے ہی کیوں نہ ہو۔

4۔ اور جو اس نے قرض دینا ہے۔اسکو اس ساری مالیت سے نفی کر دے۔ البتہ وہ قرض نفی نہیں ہوگا، جو فضولیات کیلے لیا گیا ہو، یا ادا کرنے میں جان بوجھ کے سستی کی ،یا ٹال مٹول سے کام لیا ہو۔

  • یعنی تاجر تجارت کے سامان کی قیمت کو ، اپنے پاس موجود نقدی کو،اور جو اس نے قرض لینا ہے،تینوں چیزوں کو ملا کر کل رقم کا اڑھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ