سوال

ہر سال قربانی کے موقعہ پر بعض لوگ یہ کہنا شروع ہوجاتے ہیں کہ قربانی کرنے کی بجائے، اُتنی  رقم کسی غریب کو صدقہ کردی جائے، تو زیادہ بہتر ہے ۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

  • قربانی سنتِ ابراہیمی ہے ، اور اسوہ حسنہ بھی ۔ ارشاد باری ہے :

{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2]

اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے۔

قربانی کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر  مروی ہے:

( مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ) (ابن ماجہ: 3123)

جو شخص قربانی کی طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا کہ آپ ہر سال قربانی کیا کرتے تھے ، یہی سنتِ مبارکہ بعد میں صحابہ وتابعین اور آج تک مسلمانوں میں  جاری وساری ہے ۔

  • بلا شبہ صدقہ وخیرات اور غربا ومساکین کی مدد افضل ترین اعمال میں سے ہے، لیکن یہ قربانی کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے ہم پر نماز فر ض کی ہے، دن میں پانچ مرتبہ وقت نکال کر اس فریضہ کی ادائیگی ضروری ہے، لیکن کوئی شخص کہے کہ جو وقت میں نے  نماز میں صرف کرنا ہے، بہتر ہے کہ اس وقت میں اللہ کے بندوں کی خدمت کردوں، تو ایسا شخص فریضہ نماز کاتارک ہونے کے سبب سخت ترین تادیب  وسزا کا مستحق ہے۔ ہاں اگر کوئی نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کی خدمت بھی کرتا ہے، تو یہ

بہترین کام ہے۔ بالکل اسی طرح  قربانی کی سنت جانوروں کا خون بہانے سے ادا ہوتی ہے، صدقہ وخیرات کردینا اس سے کفایت نہیں کرےگا۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

{لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ} [الحج: 37]

اللہ کوجانوروں کا گوشت اور خون   نہیں پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیزگاری اس کے ہاں پہنچتی ہے۔

گو اللہ تعالی کو گوشت پوست کی ضرورت نہیں، لیکن جس عمل کو ہم نے تقوی واخلاصِ نیت سے سرانجام دینا ہے، وہ  قربانی ہی ہے، تبھی تو جانوروں کے   گوشت اور خون کا تذکر ہ ہے۔

  • شریعت نے غرباء و مساکین کی مدد کے لیے بہت سارے راستے کھولے ہیں۔ زکوۃ ،نفلی صدقات وخيرات یہ سب امور غریب کی ہمدردری کے پیشِ نظر ہی ہیں۔ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ اسلام میں قربانی  اور غریب کی مدد دونوں حکم موجود ہیں۔  بلکہ قربانی تو سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے، جبکہ غریب کی مدد کی ترغیب ورہنمائی تو سارا سال ہی موجود ہے۔اگر ہم غریب کی مدد والے حکم کو  مدنظر رکھیں تو یہ   الجھن پیدا نہیں ہوگی  کہ قربانی کی جائے، یا وہ رقم غریبوں میں تقسیم کی جائے۔
  • حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے صدقہ وخیرات اور غربا ومساکین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کے دینی احکامات کو تو پسِ پشت ڈالا ہی ہے، اب ہم اپنی اس کوتاہی کو درست کرنے کی بجائے،  دیگر عبادات پر بھی حملہ آور ہونا چاہتے ہیں، غریب کی مدد والے حکم میں تو ہم پہلے ہی کوتاہی کر رہے ہیں، اور معاشرے میں غربت عام ہے، لیکن اسی بہانے ہم قربانی والی سنت کو بھی ضائع کرنا چاہتے ہیں۔
  • اہم بات یہ بھی ہے کہ خود قربانی کا نظام اس قدر بابرکت ہے کہ اس سے پیسہ معاشرے کے مختلف طبقات میں سرکولیٹ ہوتا ہے،جانور پالنے والے لوگوں کی مدد ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق  ہر سال 4 کھرب روپے سے زیادہ کا مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے، 3 ارب روپے سے زیادہ چارے کے کاروبار والے کماتے ہیں۔23 ارب روپے قصائی مزدوری کے طور پر کماتے ہیں ،اس کے علاوہ مختلف شکلوں میں

بہت سارے لوگوں کا کاروبار  و روزگار چلتا ہے۔بلکہ کھالیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک میں چمڑہ زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے، جس سے ملکی معیشت بھی بہتری کی طرف آتی ہے۔ ثابت ہوا کہ قربانی صرف عبادت وسنت ہی نہیں،  بلکہ غریب   کی ہمدردی اور ملکی معیشت کی  بہتری کا زبردست ذریعہ بھی ہے۔

  • دوسري طرف حج، قربانی، مساجد ومدارس کی تعمیر کے موقعہ پر غریب ومسکین کے حقوق کی دہائی دینے والے طبقے کی اپنی صورت حال یہ ہے کہ مہنگی ترین فاسٹ فوڈ چینز پر ہزاروں بہاتے ہیں، نت نئے برانڈز کی خریداری،عالیشان کوٹھیاں,  محلات پھر ان میں آرائش و زیبائش، آئے روز بیش قیمت گاڑیاں و موبائلز پر فضول خرچی کی جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں کے ہیرے جواہرات  استعمال كرکے، مہنگے ترين سوٹ پہن  كر،  شادیوں، ولیموں پر غیر ضروری اخراجات ، بلکہ ویلنٹائن ڈے جیسے حیا باختہ تہواروں پر لاکھوں  لٹانے اور بہانے کے بعد غریب ہمیں یاد آتا ہے، تو صرف حج اور قربانی کے موقعہ پر؟ کیا سگریٹ نوشی، شراب، جوا جیسی محرمات پر ضائع ہونے والا پیسہ فضول خرچی نہیں ہے؟ حالانکہ یہ وہ جگہ ہے، جہاں غربا ومساکین کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ  شعائرِ اسلامیہ پر اس قدر سستی تنقید و ہلکی جملے بازی کرنے والوں کو غریب سے ہمدردی ہے نہ قربانی پر ذبح ہونے والے جانوروں  سے کوئی پیار، بلکہ انہیں بغض وکراہیت ہے اس دینِ اسلام سے، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو  اللہ مالک الملک کے حقوق کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ، مخلوقِ خدا  کی بہتری وترقی کے لیے بھی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو دینِ اسلام پر یکسوئی سے گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ   (نائب رئیس)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ