سوال

پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانے سے متعلق ایک حدیث مروی ہے:

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَلْزَقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ وَكَعْبَهُ بِكَعْبِهِ. [سنن ابى داود:662]

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:  تم لوگ اپنی صفیں درست کرو  ( یہ جملہ آپ نے تاکید کے طور پر )  تین بار( کہا) اللہ کی قسم تم لوگ اپنی صفیں درست کرو گے، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا ، نعمان بن بشیر کہتے ہیں: تو میں نے آدمی کو اپنے ساتھی کے مونڈھے سے مونڈھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوتے دیکھا۔‘‘

شیخ محترم کچھ لوگ مندرجہ بالا حدیث  كے متعلق کہتے ہیں کہ چونکہ گھٹنے سے گھٹنا ملایا ہی نہیں  جاسکتا، اس لئے پاؤں ملانے سے حقیقی ملانا مراد نہیں ،بلکہ برابر کرنا مراد ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ برائے مہربانی اس حدیث کا درست معنی ومفہوم واضح فرمادیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے، ویسے تو اس کا معنی واضح ہی ہے، لیکن اس کی مختلف روایات کو دیکھا جائے، تو اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے، ذیل میں ہم اس حدیث کو تین حصوں میں تقسیم کرکے، اس کے  مختلف الفاظ ذکر کرتے ہیں:
  • صف درست کروانے کا طریقہ نبوی:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ نماز سے پہلے صفیں درست کروایا کرتے تھے، اور بعض دفعہ دوبارہ تاکید کرلیا کرتے تھے کہ صف میں کہیں کوئی خرابی تو نہیں رہ گئی۔ جیسا کہ درج ذیل روایات میں ہے:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَوِّي صُفُوفَنَا حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا فَقَامَ، حَتَّى كَادَ يُكَبِّرُ فَرَأَى رَجُلًا بَادِيًا صَدْرُهُ مِنَ الصَّفِّ. [صحيح مسلم:436]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں اس طرح سیدھا کرتے تھے، جیسے تیروں کو سیدھا کیا جاتا ہے، جب ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے یہ سنت اچھی طرح سمجھ لی ہے، تو ایک دن آپ  نماز کے لیے تشریف لائے، نماز کھڑی ہوئی، قریب تھا کہ آپ تکبیر ِ تحریمہ کہتے، لیکن آپ نے دیکھا کہ  ایک آدمی کا سینہ  صف سے باہر ظاہر ہورہا ہے۔‘‘

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَوِّينَا فِي الصُّفُوفِ كَمَا يُقَوَّمُ الْقِدْحُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنْ قَدْ أَخَذْنَا ذَلِكَ عَنْهُ، وَفَقِهْنَا أَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ بِوَجْهِهِ إِذَا رَجُلٌ مُنْتَبِذٌ بِصَدْرِهِ. [سنن ابی داود:663]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صفوں میں اس طرح سیدھا کرتے تھے، جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے، جب ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے یہ سنت اچھی طرح سیکھ اور سمجھ لی ہے، تو ایک دن آپ (نماز کے وقت) اچانک ہماری طرف متوجہ ہوئے، تو دیکھا کہ  ایک آدمی کا سینہ آگے ابھرا ہوا ہے۔‘‘

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُ الصَّفَّ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَى نَاحِيَةٍ يَمْسَحُ صُدُورَنَا وَمَنَاكِبَنَا. [سنن ابی داود:664]

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صف کو چیک کرتے ہوئے ہمارے سینوں اور کندھوں کو ہاتھ سے سیدھا کرتے ہوئے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تشریف لے جاتے۔‘‘

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَوِّي صُفُوفَنَا، فَخَرَجَ يَوْمًا فَرَأَى رَجُلًا خَارِجًا صَدْرُهُ عَنِ القَوْمِ.[سنن الترمذي:227]

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست کروایاکرتے تھے، ایک دن آپ تشریف لائے، تو ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ لوگوں سے باہر نکلا ہوا ہے۔‘‘

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُ الصُّفُوفَ كَمَا تُقَوَّمُ الْقِدَاحُ، فَأَبْصَرَ رَجُلًا خَارِجًا صَدْرُهُ مِنَ الصَّفِّ.[سنن النسائي :810]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو اس طرح سیدھا کرتے، جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے، پھر آپ نے  ایک آدمی کو دیکھا، جس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا۔‘‘

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُسَوِّي الصَّفَّ، حَتَّى يَجْعَلَهُ مِثْلَ الرُّمْحِ أَوِ الْقِدْحِ قَالَ، فَرَأَى صَدْرَ رَجُلٍ نَاتِئًا. [سنن ابن ماجہ:994]

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف کو برابر کرواتے یہاں تک کہ اسے نیزے یا تیر کی مانند بنادیتے، پھر  بھی آپ نے ایک آدمی کا سینہ ابھرا ہوا دیکھا…‘‘

ایک روایت میں ہے:

“يُقِيمُ الصُّفُوفَ كَمَا تُقَامُ الرِّمَاحُ أَوِ الْقِدَاحُ”[مسند أحمد :30/ 335برقم:18385]

’’آپ صفوں کو یوں کھڑا کرتے، جیسے نیزہ یا تیر کھڑا کیا جاتا ہے۔‘‘

ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب حضور تکبیر کہنے لگے تو ایک آدمی کو دیکھا، جس کا سینہ اٹھا ہوا تھا:

“فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُكَبِّرَ، رَأَى رَجُلًا شَاخِصًا صَدْرُهُ”.[مسند أحمد : 30/ 349برقم:18400]

یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعلِ مبارک کو بیان کرنے کے لیے درج ذیل الفاظ بولے گئے ہیں:

يسوي:  برابر  کرنا، اس طرح کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہ جائے۔

يتخلل: صفوں میں داخل ہو کر چیک کرنا کہ کہیں کوئی خلا نہ ہو۔

يقيم: کھڑا  اور سیدھا کرنا، تاکہ اس میں کوئی جھول نہ رہ جائے۔

يقوم:  بالکل سیدھا کرنا، کمی کوتاہی دور کرنا، یہاں بھی ’تسویہ‘ اور ’ اقامت‘ والا معنی کی تاکید ہی مراد ہے۔

ان چاروں لفظوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  صف کی درستی کا انتہائی زیادہ اہتما م کرتے تھے،  اور  آگے پیچھے، دائیں بائیں، ہر اعتبار سے اس کے سیدھا  اور ملے ہوئے ہونے کی تاکید وتسلی کرتے تھے۔

  • صحابہ کرام کی صف بندی کی نقشہ کشی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قدر اہتمام کے ساتھ صف بندی کرواتے، تو صحابہ کرام کی صفیں کیسی ہوتی ہوں گی؟ یہ خود صحابہ کرام کی زبانی ملاحظہ کریں:

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

«فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَكُونُ كَعْبُهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتُهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ، وَمَنْكِبُهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ»

[صحيح ابن خزيمة : 1/ 82 برقم:160]

میں نے دیکھا کہ ہر آدمی کاٹخنہ ساتھ والے کے ٹخنے سے، اور گھٹنہ ساتھ والے کے گھٹنے سے، اور کندھا ساتھ والے کے کندھے کے ساتھ تھا۔

ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:

فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَإِنَّ الرَّجُلَ مِنَّا لَيَلْتَمِسُ بِمَنْكِبِهِ مَنْكِبَ أَخِيهِ، وَبِرُكْبَتِهِ رُكْبَةَ أَخِيهِ، وَبِقَدَمِهِ قَدَمَ أَخِيهِ. [فوائد تمام: 2/ 129،برقم:1332]

ہم خود کو دیکھتے تھے کہ ہم سے ہر آدمی  اپنے کندھے  کو اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ، ٹخنے کو اپنے بھائی کےٹخنے کے ساتھ، اور قدم کو اپنے بھائی کے قدم کے ساتھ لگانے کی بھرپور کوشش کرتا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

«وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ»[صحيح البخارى:725]

’’ہم  میں سے ہر شخص اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے، اور قدم کو اس کے قدم کے ساتھ جوڑتا تھا‘‘۔

ایک اور روایت میں مزید اضافہ ہے:

«وَلَوْ ذَهَبْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ لَتَرَى أَحَدَهُمْ كَأَنَّهُ بَغْلٌ شَمُوسٌ»[مصنف ابن أبي شيبة :1/ 308 برقم:3524]

’’اور اگر آج آپ اسی طرح پاؤں ملانے کی کوشش کریں تو آپ دیکھیں گے ، ساتھ والا ایسے دور بھاگے گا، جس طرح کوئی سرکش خچر۔‘‘

  • صف درست نہ کرنے کا انجام: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے سخت وعید فرمائی، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:

«عِبَادَ اللهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ» [صحيح مسلم:436]

اے اللہ کے بندو! ’’تم ضرور بالضرور صفیں برابر رکھو گے، ورنہ اللہ تعالی تمہارے چہروں  کو ایک دوسرے سے پھیر دے گا۔‘‘

‏‏‏‏‏‏«وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ» [سنن ابى داود:662]

’’اللہ کی قسم تم ضرور بالضرور صفیں درست رکھو گے، ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔‘‘

«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ»[سنن ابن ماجہ:994]

صفیں برابر کرلیں، ورنہ اللہ تعالی تمہارے چہروں  کو ایک دوسرے سے پھیر دے گا۔‘‘

  • مذکورہ بالا حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ پاؤں، کندھے ملاتے ہوئے صف بندی کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے، اور اس میں سستی اور کوتاہی کرنے والا سخت وعید کا مستحق ہوسکتا ہے۔
  • اس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ  نمازی صف میں کھڑے ہوتے ہوئے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھے، جیساکہ  ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ”. [بخارى:828]

’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا‘۔

اور پھر پاؤں اپنے وجود کے مطابق کھولتے ہوئے جس قدر ممکن ہوسکے، پاؤں اور کندھے ایک دوسرے کے ساتھ ملائے جائیں۔ اگر انگلیاں قبلہ رخ نہ ہوں، یا پھر پاؤں وجود سے زیادہ کھول لیےجائیں، تو ایک دوسرے سے پاؤں ملانے میں دقت اور مشکل پیش آتی ہے۔

  • رہی یہ بات کہ ٹخنے ایک دوسرے سے نہیں ملتے ،  لہذا پاؤں سے پاؤں ملانے والا حکم ختم! تو یہ ہرگز درست  نہیں۔ بالا سطور میں صف بندی اور پاؤں سے پاؤں ملانے کا  تاکیدی حکم  معلوم ہوچکا ہے،  آخر اس کے برعکس کیا دلیل ہے کہ جس پر اعتماد کرکے  اس قدر تاکیدی حکم کو چھوڑا جائے؟

ایسے مقامات پر علمائے اصولِ فقہ کے ہاں ایک دلیل کا ذکر کیا جاتا ہے، جسے ’رفع المشقة‘،’رفع الحرج‘ جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے،  مراد اس سے یہ ہوتا ہے کہ شریعت میں تکلیفِ ما لایطاق  یعنی ایسی مشقت نہیں  ہے، جس کو عام  حالات میں انسان کے لیےکرنا  ناممکن یا بہت مشکل ہو۔  ایسی صورتِ حال میں اصول یہی ہے کہ  جس قدر مشقت و حرج ہوگا، اسی قدرکسی حکم کی ادائیگی میں رخصت اور چھوٹ مل جاتی ہے، مطلب ’الضرورة تقدر بقدرها‘  کے تحت رخصت اور چھوٹ حسبِ ضرورت ہوگی، یہ نہیں کہ ایک مشقت ، تنگی اور عذر کا بہانہ  بنا کر کسی شرعی حکم یا احکامات سے کلی آزادی کا راستہ اختیار کرلیا جائے۔

لہذا ہم یہ کہیں گے کہ اگر آپ کے ٹخنے نہیں ملتے، تو آپ ملانے میں تکلف نہ کریں،  لیکن پاؤں سے پاؤں ملانے والے بقیہ حکم پر تو عمل پیرا ہوں، کیونکہ ان کے ملانے میں تو کوئی  مشقت یا عذر نہیں ہے۔  تعجب ہے کہ جو حکم صف بندی کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے، ہم اس سے صف بندی میں سستی و کوتاہی کے دلائل کشید  رہے ہیں!

آپ حدیث  سے ایسا درست مفہوم کیوں نہیں لیتے جودیگر نصوص کے بھی مطابق ہو کہ پاؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس  قدر ملانے  کی تاکید ہے، گویا کہ آپ ٹخنے سے ٹخنہ ملانا چاہتے ہیں۔

امام ابن خزیمہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“وَفِي هَذَا الْخَبَرِ مَا نَفَى الشَّكَّ وَالِارْتِيَابَ أَنَّ الْكَعْبَ هُوَ الْعَظْمُ النَّاتِئُ الَّذِي فِي جَانِبِ الْقَدَمِ الَّذِي يُمْكِنُ الْقَائِمُ فِي الصَّلَاةِ أَنْ يَلْزَقَهُ بِكَعْبِ مَنْ هُوَ قَائِمٌ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ.” [صحيح ابن خزيمة : 1/ 82 تحت رقم:160]

اس  روایت سے بلا شک وشبہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ’کعب‘ سے مراد قدم کے  ایک طرف ابھری ہوئی وہ ہڈی ہے، جسے نماز میں ساتھ کھڑے آدمی  کے ٹخنے کے ساتھ ملانا ممکن ہوتا ہے۔

ٹخنے سے ٹخنہ ملنے کا امکان بھی تبھی ہوتا ہے، جب پاؤں آپس میں اہتمام کے ساتھ ملائے جاتے ہیں، جب پاؤں ہی نہ ملے ہوئے ہوں اور ان میں فاصلہ ہو، تو ٹخنے  سے ٹخنہ ملنے کے امکان کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا۔

  • آخرمیں ہم ایک اہم تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ پاؤں سے پاؤں اچھی طرح مل جائیں، لیکن ٹخنے سے ٹخنہ نہ مل رہا ہو، تو پھر ’إلزاق الكعبين‘پر تکلف و اصرار درست نہیں، کیونکہ اس سے صف بھی خراب ہوتی، انگلیاں قبلہ رخ رکھنے والی سنت بھی متاثر ہوتی ہے، اور انسان خود بھی اور دوسروں کو بھی مشقت میں ڈالتا ہے، اور جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ ایسی مشقت شریعت میں مقصود نہیں ہے، لہذا  اہلِ علم نے اس  سے منع کیا ہے، بلکہ شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’لاجدید فی احکام الصلاۃ‘  میں اسے  ’غلو اور بدعت ‘قرار دیا ہے۔

هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ