سوال
محترم مفتیان کرام! میرا سوال ہے کہ زبانی وصیت کا کیا حکم ہے؟
اگر میت نے ایک خاتون کو زبانی وصیت کی اور اس وصیت پر کوئی گواہ موجود نہیں تو اس وصیت کا کیا حکم ہوگا؟ اگر وارثین اس خاتون کی وصیت کو تسلیم کرتے ہیں تو کیا وصیت نافذ ہوگی؟
اگر خاتون نے وصیت کی ویڈیو بنائی ہے تو اس ویڈیو کو ثبوت کے لیے کافی سمجھا جائے گا؟
اس معاملے میں وصیت کے ثبوت و نفاذ کا طریقہ کار کیا ہے؟
میرے والد نے اپنی زندگی میں کاروبار میں کچھ پیسے لگائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے میری والدہ رحمھا اللہ کے صدقہ جاریہ کے لیے ایک کنواں بنوایا تھا۔
تو انہوں نے میری زوجہ کو زبانی یہ کہا کہ میری وفات کے بعد کاروبار سے آنے والی رقم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔
ایک حصہ میری یتیم پوتیوں کو ان کی شادی تک دینا ہے،دوسرا حصہ میرے آبائی گھر کے چوکیدار کو بھیجنا ہے تاکہ وہ گھر اور کنویں کی maintenance کرسکے۔
آیا اس طرح کی وصیت جائز ہے؟ اگر کاروبار ثلث سے زیادہ ہے تو کیا طریقہ کار ہوگا؟ یاد رہے باقی وارثین آسودہ حال ہیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
وصیت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
“مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ”. [البخاري: 2738 ، ومسلم: 1627]
’کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں کہ وہ اپنی کسی چیز میں وصیت کرنا چاہتا ہومگر دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو‘۔
اس بنیاد پر اہل علم نے لکھا ہے کہ وصیت تحریری صورت میں ہو تو یہ اولی اور افضل ہے، لیکن بہر صورت وصیت زبانی بھی ہوجاتی ہے ۔
البتہ وصیت کے ثبوت کے لیے دلیل ضروری ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
“يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ…”. [ المائدة:106]
یعنی وصیت کے وقت مسلمانوں میں سے دو عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور اگر مسلمان نہ ہوں تو دو غیر مسلموں کو بھی گواہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اگر دو مرد نہ ہوں تو دو عورتیں اور ایک مرد یا پھر ایک گواہ ہو تو ساتھ وصیت کا وعویدار حلف اٹھائے گا۔
جہاں تک بات آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کی ہے تو یہ بطور دلیل پیش نہیں کی جا سکتی، البتہ اس کو فیصلہ کے وقت قرائن میں سے ایک قرینہ سمجھا جا سکتا ہےاور یہ بھی مکمل تحقیق کے بعد کہ وہ ویڈیو یا آڈیو اصلی اور مصدقہ ہے، کیونکہ آج کل نت نئی سہولیات کے پیش نظر کسی بھی شخص کی آواز اور تصویر کے ساتھ جعلی آڈیو یا ویڈیو تیار کرنا ممکن ہے۔
اور یہ کتابت، گواہی وغیرہ سب چيزوں کا مطالبہ اس صورت میں ضروری ہے، جب ورثاء اس کا مطالبہ کریں۔ اگر ورثا مدعی کی بات پر یقین اور وصیت کا اعتراف کرلیں تو پھر وصیت کو نافذ کرنے کے لیے کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اقرار اور تصدیق ، دلیل اور ثبوت کے قائم ہو گا۔ (دیکھیں: بدائع الصنائع للکاسانی:7/338، روضۃ الطالبین للنووی: 4/354)
مذکورہ صورت میں ورثاء اس وصیت پر راضی ہیں اور اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں تو پھر اس وصیت کو لاگو کیا جائے گا۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ وصیت کل مال کے ثلث ہی میں نافذ ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“الثُّلُث، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ”. [صحيح مسلم: 1629]
’تہائی ( تک کی وصیت کرو ) ، اور تہائی بھی زیادہ ہے‘۔
صورت مسئولہ میں جتنی وصیت کی جارہی ہے اس حصے میں وقف کی صورت نظر آتی ہے، کیونکہ وصیت کرنے والا اصل (یعنی کاروبار) ثابت رکھ کر اس کی آمدن سے ایک حصہ چوکیدار کو اور ایک حصہ یتیم پوتیوں کو دینا چاہتا ہے۔ لہذا اس کو ایسے ہی نافذ کیا جائے یہاں تک کہ مقررہ حد بندی یا وقت مکمل ہو جائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ