سوال (3156)
قال ابو نعيم احمد بن عبدالله الاصبهاني المتوفي 430 هجري في” ذكر اخبار اصفهان ج1/ ص 87, ترجمه احمد بن يحيى بن المنذر المكتب: أخبرنا عبدالله بن جعفر بن حيان ( حافظ ثقة احد الاعلام في زمانه، ت 369 هجري)، قال: حدثنا يوسف بن محمد الامام ( كان من خيار الناس. قاله فيه تلميذه عبد الله بن جعفر بن حيان: طبقات المحدثين باصبهان ج2/ص 312)، قال حدثنا أحمد بن يحي المكتب ( ثقة )، قال حدثنا مسلم بن ابراهيم الفراهيدي ( ثقة مامون مكثر. تقريب ) قال حدثنا حريق بن السائب ( صدوق يخطي، تقريب) قال سمعت الحسن (البصري: ثقة فقيه فاضل. وكان يرسل ويدلس. تقريب) يحدث عن عن أنس ( رضي الله عنه) قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل مولود مرتهن بعقيقته، تعق عنه يوم سابعه من الابل والبقر والغنم”. وهو حديث لا ينزل عن درجة الحسن.
راجع التفصيل :” طرح التقريب الحافظ العراقي ،ج5/ ص 208,209// وفتح الباري لابن حجر ج9/ ص 506،507 كتاب العقيقه ،باب اماطة الاذى عن الصبي حديث رقم 5471,5472. طبعه السلفيه // وكان أنس رضي الله عنه يذبح الابل في العقيقة . راجع التفصيل في المصادر المذكور اعلاه.
شیخ محترم اس کی مزید وضاحت فرما دیں۔
جواب
(1) یہ روایت پہلے، دوسرے، تیسرے طبقہ کی کتب احادیث میں موجود نہیں ہے، یعنی کبار ائمہ محدثین اس پر مطلع کیوں نہیں ہو پائے؟
(2) یہ روایت کبار ثقات حفاظ بیان نہیں کرتے ہیں۔
(3) اس روایت کی متابعت و شاہد صحیح موجود نہیں ہیں۔
(4) یہ روایت اس مسئلہ کی صحیح احادیث کے معارض و مخالف ہے۔
(5) حسن بصری مشھور مدلس راوی ہیں یہاں سماع کی صراحت موجود نہیں ہے۔
(6) پھر حسن بصری کے کبار ثقات تلامذہ اس روایت کو حسن بصری سے بیان نہیں کرتے ہیں یہ بھی ایک قرینہ ہے اس روایت کے غیر محفوظ وضعیف ہونے پر۔
(7) إمام عبدالله بن جعفر بن حیان أبي الشيخ الأصبهاني کے شیخ کی صریح توثیق اور ان کے ضبط وحفظ کے ٹھیک ہونے پر کوئی دلیل وقرینہ موجود نہیں ہے۔
کان من خيار الناس تعریف و توصیف پر مبنی تو ہے مگر یہ دین کے اعتبار سے ہے روایت حدیث کے اعتبار سے نہیں ہے۔ اس لیے یہ روایت درجہ صحت کو نہیں پنہچتی ہے۔
(8) مسلم بن ابراہیم کے تلامذہ میں أحمد بن یحیی راوی موجود نہیں ہے۔
تو ان وجوح کے سبب یہ روایت ضعیف ومعلول ہے اور صحیح اور محفوظ وہی حدیثیں ہیں جن میں بطور عقیقہ بکری،دنبہ کرنے کا ذکر ہے۔
اور اونٹ وغیرہ جانور بطور عقیقہ کرنا سنت سے ثابت نہیں نہ قولا اور نہ ہی فعلا لہزا صریح وصحیح حدیث وعمل کے مقابل شاذ عمل و موقف پیش نہیں کرنا چاہیے ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ