سوال (3338)

“مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهُ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ” یہ حدیث مختلف فیہ ہے، کچھ محدثین نے صحیح جبکہ کچھ نے ضعیف کہا ہے، سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے صحیح کہا ہے، ان کی رائے کو لے کر ہم فضائل کے باب میں استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

ہمارے علم کے مطابق یہ روایت مختلف فیہ نہیں ہے۔
کبار معاصر محققین میں سے جنہوں نے شواہد سمیت ضعیف کہا ہے ان میں محدث البانی رحمه الله تعالى (الضعيفة:1121)، ضعیف سنن ترمذی :/2035)
محقق جلیل شیخ مصطفی العدوی( مسند عبد بن حمید :362)شیخ شعیب الأرنووط وغيره( مسند أحمد بن حنبل:1/15403، 2/ 15403،
عظیم محقق شیخ أبو اسحاق الحوینی نے ضعیف جدا کہا

اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ ﻓﻲاﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﻀﻌﻴﻔﺔ ﻭاﻟﺒﺎﻃﻠﺔ ﻷﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺤﻮﻳﻨﻲ:(25)

اور ائمہ محدثین نے بھی اس روایت کو قبول نہیں کیا بلکہ معلول وضعیف قرار دیا ہے۔
امام ترمذی نے خود اس روایت کی علت بیان کر رکھی ہے ( سنن ترمذی: 1952) حافظ ذہبی نے اسی طریق کے بارے کہا: ﺑﻞ ﻣﺮﺳﻞ ﺿﻌﻴﻒ( تلخیص مستدرک حاکم: (7679)، امام عقیلی ( الضعفاء الکبیر، ترجمہ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﺭﺳﺘﻢ اﻟﺨﺰاﺯ :1321)
امام عقیلی ایک اور سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻟﻴﺲ ﺑﻤﺤﻔﻮﻅ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﺣﺴﺎﻥ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﻌﺮﻑ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻦ ﺭﻭاﻳﺔ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﻣﺮ اﻟﺨﺰاﺯ ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﺟﺪﻩ ﻭﻟﻴﺲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﺜﺎﺑﺖ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻓﻴﻪ ﺃﻳﻀﺎ ﻣﻘﺎﻝ
الضعفاء الکبیر للعقیلی:4/ 227
امام بخاری ( التاریخ الکبیر للبخاری :1/ 422،امام ابن حبان ( المجروحین : 2/ 188) امام ابن عدی:6/ 159، 160

تو یہ روایت سخت ضعیف ہے
اور اس کے شواہد سخت ضعیف وغیر محفوظ ہیں
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ