سوال (3205)

شیخ محترم نیل الاوطار یہ حدیث کی کتاب ہے یا فقہ کی؟ اتنا تو معلوم ہے کہ یہ منتقی الاخبار کی شرح ہے۔

جواب

اصلا تو یہ شروحاتِ حدیث میں سے ہی ہے، لیکن ایک تو چونکہ المنتقی احادیث احکام پر مشتمل ہے، دوسرا شارح نے شرحِ حدیث کے ساتھ ساتھ فقہی مسائل کے بیان اور فقہاء کے اقوال کے بیان پر اسی طرح توجہ دی ہے، جس طرح عام کتبِ فقہ میں دی جاتی ہے، اس لیے اسے حدیث اور فقہ دونوں کی کتاب کہا جا سکتا ہے۔
بلکہ اگر اسے ’فقہ الحدیث علی منہج المحدثین’ کہا جائے تو بالکل درست ہو گا، کیونکہ اس کتاب کا اصل مقصد یہی تھا کہ کسی فقہی مذہب کی تقلید اور پابندی سے بلند ہو کر قرآن وسنت کی روشنی میں فقہی مسائل کے مستند دلائل ذکر کر دیے جائیں.
امام صاحب مقدمہ میں فرماتے ہیں:

«لما كان الكتابُ الموسومُ بالمنتقى من الأخبار في الأحكام، مما لم يُنسَجْ على بديع مِنوالِه، ولا حَرَّر على شكله ومثالِه أحدٌ من الأئمة الأعلام. قد جمع من السنة المطهرةِ ما لم يجتمِعْ في غيره من الأسفارِ، وبلغ إلى غاية في الإِحاطة بأحاديث الأحكامِ تتقاصر [عنها] الدفاترُ الكبار. وشمَل من دلائل المسائلِ جملةَ نافعةً تُفنى دون الظفرِ ببعضها طِوالَ الأعمار. وصار مرجِعًا لجِلّة العلماءِ عند الحاجة إلى طلب الدليلِ لا سيما في هذه الديار وهذه الأعصار. فإنها تزاحمت على مورده العذْبِ أنظارُ المجتهدين، وتسابقت على الدخول في أبوابه أقدامُ الباحثين من المحققين، وغدا ملجأً للنُظّار يأوُون إليه، ومَفزَعًا للهاربين من رقّ التقليدِ يعوّلون عليه، وكان كثيرًا ما يتردّد الناظرون في صحة بعضِ دلائلِه، ويتشكك الباحثون في الراجح والمرجوحِ عند تعارض بعضِ مستنداتِ مسائِله، حَمَلَ حسنُ الظن بي جماعةً من حمَلة العلمِ بعضُهم من مشايخي على أن التمسوا مني القيامَ بشرح هذا الكتاب». [نيل الأوطار 1/ 104]

اس اقتباس سے واضح ہے کہ امام صاحب نے اس کتاب کی خدمت ان لوگوں کی آسانی کے لیے کی ہے، جو تقلید کی بجائے دلیل کے متلاشی ہیں اور انہیں احادیث کی تحقیق اور مسائل میں راجح کی پہچان میں دلچسپی ہے۔
مزید آگے فرمایا:

«وقد سلكتُ في هذا الشرح لطول المشروحِ مسلكَ الاختصار، وجرّدتُه عن كثير من التفريعات والمباحثاتِ التي تُفْضي إلى الإِكثار، لا سيما في المقامات التي يقِلّ فيها الاختلاف، ويكثُر بين أئمةِ المسلمين في مثلها الائتلاف. وأما في مواطن الجدالِ والخصامِ فقد أخذتُ فيها بنصيب من إطالة ذيولِ الكلام… وقد قمت ولله الحمدُ في هذه المقاماتِ مقامًا لا يعرِفُه إلا المتأهِّلون، ولا يقِف على مقدار كُنْهِه من حَمَلة العلمِ إلا المُبرِّزون. فدونك يا من لم تذهَبْ ببصر بصيرتِه أقوالُ الرجال، ولا تدنّسَتْ فطرةُ عِرفانِه بالقيل والقال – شرحًا يشرح الصدور، ويمشي على سنن الدليلِ وإن خالف الجمهور». [نيل الأوطار 1/ 105]

یعنی اتفاقی مسائل کا اختصار سے ذکر کیا ہے، جبکہ جہاں اختلاف ہے، وہاں تفصیلی اقوال اور ان کے دلائل ذکر کرکے، کسی ایک کی تقلید کی بجائے راجح موقف اور وجہ ترجیح کا اہتمام کیا ہے۔
شرح سے متعلق اپنے منہج واضح کرتے ہوئے مزید رقمطراز ہیں:

«وقد اقتصرتُ فيما عدا هذه المقاماتِ الموصفات على بيان حال الحديثِ وتفسيرِ غريبِه وما يستفاد منه بكل الدِلالات، وضممْتُ إلى ذلك في غالب الحالاتِ الإِشارةَ إلى بقية الأحاديثِ الواردةِ في الباب مما لم يُذكَر في الكتاب لعِلْمي بأن هذا من أعظم الفوائدِ التي يرغب في مثلها أربابُ الألبابِ من الطلاب.
ولم أطوِّلْ ذيلَ هذا الشرحِ بذكر تراجمِ رواةِ الأخبار؛ لأن ذلك مع كونه علمًا آخرَ يمكن الوقوفُ عليه في مختصر من كتب الفنِّ من المختصرات الصغار. وقد أشيرُ في النادر إلى ضبط اسمِ راوٍ أو بيانِ حالِه على طريق التنبيه، لا سيما في المواطن التي هي مَظِنةُ تحريفٍ أو تصحيف لا ينجو منه غيرُ النبيه.
وجعلتُ ما كان للمصنف من الكلام على فقه الأحاديثِ وما يستطرده من الأدلة في غضونه من جملة الشرحِ في الغالب، ونسبْتُ ذلك إليه، وتعقبْتُ ما ينبغي تعقُّبَه عليه، وتكلمتُ على ما لا يحسُن السكوتُ عليه مما لا يستغني عنه الطالب.». [نيل الأوطار 1/ 106]

احادیث کی شرح کرتے ہوئے غریب کلمات کی وضاحت کی ہے، اسی طرح احادیث سے مستفاد مسائل کا اختصار سے ذکر کیا ہے، اور اسی طرح موضوع سے متعلق دیگر احادیث کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ بعض ضروری مقامات پر راویوں کے ضبط یا ترجمہ سے متعلق کچھ وضاحت کردی ہے لیکن عمومی طور پر راویوں کے تراجم اور جرح و تعدیل کے ذکر کا اہتمام نہیں کیا۔
مزید ایسے فوائد جو جستجو رکھنے والوں کے لیے مفید ہو سکتے ہیں، کا بھی جابجا اہتمام کیا ہے۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ کتاب کا اصل موضوع تو شرح حدیث ہی ہے، لیکن شرح برائے شرح کی بجائے فقہائے محدثین کے منہج اور طرز پر فقہ الحدیث کے بیان کا اہتمام کیا گیا ہے، اس لیے اسے فقہ کی کتاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے ابن حجر اور ابن رجب کی فتح الباری اور اس سے پہلے امام نووی کی منہاج بھی اسی طرز کی شروحات ہیں۔

فضیلۃ الباحث حافظ خضر حیات حفظہ اللہ