سوال (3490)

سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا:

“يا رب لک الحمد کما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانک”

اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے،
تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے يا رب لک الحمد کما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانک تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا۔

(ابن ماجہ 3801، قد ضعفہ الالبانی وعلیزئی من اجل صدقہ بن بشیر و شیخہ قدامہ بن ابراہیم وھما مقبولان، بل وثق ابن ماکولا صدقہ بن بشیر فی الاکمال 291/1 وقد وثق ابن حبان قدامۃ بن ابراہیم فی الثقات 319/5 و 340/7 وصحح لہ فی صحیحہ واورد لہ الحاکم فی المستدرک 6440، و سکت عنہ الذھبی فی التلخیص وقال لہ وثق فی الکاشف 134/2 وصویلح فی تاریخ الاسلام 1018 ووافقہ السخاوی فی التحفۃ اللطیفۃ 79/2 ، وقال الباحثون فی تحریر تقریب التہذیب 179/3 بل صدوق حسن الحدیث فقد روی عنہ جمع وذکرہ ابن حبان فی الثقات، ولا یعلم فیہ جرح وحسن لہ حسین سلیم اسد مسند ابی یعلی 7532

اس روایت کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ یہ حسن درجہ تک پہنچ جاتی ہے کہ نہیں؟

جواب

اس کی سند ضعیف ہے، صحیح بات یہی ہے، باقی معنوی اعتبار سے روایت قابل قبول ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ معلول وضعیف روایت ہے، متن غریب ہے حفاظ ثقات سے کسی نے اس روایت کو بیان نہیں کیا ہے۔ ابن ماکولا کا ثقہ کہنا روایت حدیث میں ثقہ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کی توثیق کبار ائمہ نقاد وعلل سے ثابت نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: ابن ماکولا کو علامہ ذہبی نے نقادین میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائین؛

ابْنُ مَاكُوْلا عَلِيُّ بنُ هِبَةِ اللهِ بنِ عَلِيٍّ العِجْلِيُّ
المَوْلَى، الأَمِيْرُ الكَبِيْرُ، الحَافِظُ، النَّاقِدُ، النَّسَّابَةُ، الحُجّةُ، أَبُو نَصْرٍ عَلِيُّ بنُ هِبَةِ اللهِ بنِ عَلِيِّ بنِ جَعْفَرِ بنِ عَلِيِّ بنِ مُحَمَّدِ ابنِ الأَمِيْر دُلف ابْنِ الأَمِيْر الجَوَاد قَائِد الجُيُوْش أَبِي دُلف القَاسِمِ بنِ عِيْسَى العِجْلِيُّ الجَرْباذْقَانِيُّ، ثُمَّ البَغْدَادِيُّ، صَاحِبُ كِتَابِ(الإِكمَال فِي مشتبه النّسبَة)(سیر اعلام النبلاء 49/36)

جواب: میں نے ان کے ثقہ کہنے کا انکار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ ابن ماکولا کا ثقہ کہنا روایت حدیث میں ثقہ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ متقدمین و نقاد سے کسی نے اس کی صریح توثیق نہیں کی نہ ہی اس کے ضبط وحفظ پر کوئی دلیل و قرینہ موجود ہے، اور اس روایت میں اس کا تفرد بھی ہے، جہاں تک بات ہے ان کے ناقد ہونے کی تو وہ نقد حدیث ورجال میں ائمہ کبار و نقاد کی مثل ہرگز نہیں ہیں البتہ وہ انساب کے ماہر عالم تھے توثیق میں اکثر وہ دوسروں کا کلام ہی نقل کرتے ہیں اور خود سے بھی، بہرحال جن کے نزدیک یہ روایت حسن درجہ کی ہے انہیں یہ موقف رکھنے کا حق ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ