سوال           (287)

شیخ محترم ایک مصری عالم کے بارے معلوم کرنا تھا جو کے الفرقان نامی کتاب کا مؤلف ہے جو ابن خطیب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بارے معلوم کرنا ہے اس کے بارے بتا دیں شکریہ ۔

جواب

 یہ ایک مصری قلمکار تھا، جس کا نام ہے محمد محمد عبد اللطيف، جبکہ ابن الخطیب کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی تاریخ پیدائش 1900 بتائی جاتی ہے جبکہ تاریخ وفات ستمبر 1981 ہے۔

تفصیل کے ساتھ اس کے افکار و نظریات کے بارے میں اس کی تمام تصنیفات پڑھنا پڑیں گی، لیکن سرسری معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص ایک روشن خیال، لبرل نظریات کا حامی اور منکرِ حدیث محسوس ہوتا ہے۔

اس دور میں اس کی اپنی بیوی کے ساتھ بے پردہ تصاویر اخبارات میں چھپتی رہی ہیں، جو کہ اس کی پوتی یاسمین الخطیب نے اپنی فیس بک پر لگائی ہوئی تھیں، پوتی صاحبہ بھی بے دینوں کی سرغنہ معلوم ہوتی ہیں.. واللہ اعلم۔

یاد رہے ابن الخطیب کے نام سے ایک اور مؤرخ اور ادیب گزرے ہیں جو لسان الدین ابن الخطیب (٧١٣ – ٧٧٦ هـ = ١٣١٣ – ١٣٧٤ م) کے نام سے معروف ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ شاید یہ محمد ابن الخطیب بھی وہی ہے۔ حالانکہ یہ معاصر ہے۔ جس کی تصنیفات میں الفرقان اور حقائق ثابتۃ فی الإسلام جیسی کتابیں ہیں۔

بنیادی طور پر یہ ناشر اور صحافی تھا، ان کے والد کا مکتبہ تھا، جس سے انہوں نے نشر و اشاعت کا کام کیا۔ اور کئی ایک کتابوں کو اپنی “تنقیح و تحقیق” بالفاظ دیگر “تصحیف و تخریب” کے ساتھ چھاپا۔

الفرقان نامی کتاب کا موضوع قرآن کریم کا تعارف اس کی رسم و ضبط اور ترجمہ جیسے دقیق علوم ہیں۔ اس کتاب کی وجہ شہرت یہ ہے کہ مصنف نے اس میں رسم عثمانی کی مخالفت کے موقف کی تائید کی ہے، اسی طرح قراءات قرآنیہ کا انکار کیا ہے۔ اور اس کے لیے تاریخ سے شاذ قسم کے اقوال اکٹھے کر دیے ہیں۔ حالانکہ قراءات قرآنیہ کے حق ہونے اور رسم عثمانی کی پابندی کے متعلق تقریبا اہل علم کا اتفاق و اجماع ہے۔ بالخصوص صدر اول کے لوگوں میں رسم عثمانی کی اتباع میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ( اس پر تفصیلی کتابیں لکھی ہوئی ہیں، عربی میں بھی اور اردو میں بھی، جو نیٹ پر دستیاب بھی ہیں)

چونکہ یہ مصر کے تھے تو الفرقان نامی کتاب وہاں چھپی لہذا جب شیخ الازہر کو اس کی تفصیلات بتائی گئیں، تو ان کے حکم سے اس کتاب پر پابندی لگائی گئی اور جہاں جہاں مکتبات پر اس کے نسخے تھے، اٹھوا لیے گئے!!

ان صاحب کے عقائد و نظریات کے بیان و تردید میں کوئی خاص کتاب نظر سے نہیں گزری، البتہ کئی ایک اہل علم نے اپنی کتابوں میں اس کے مختلف عقائد و نظریات کو ذکر کر کے اس کا رد کیا ہے۔ جیسا کہ

1-    كتابات أعداء الإسلام ومناقشتها از عماد السيد محمد إسماعيل الشربينى

2-    مختصر التبيين لهجاء التنزيل لسليمان بن نجاح بن أبي القاسم الأموي بالولاء، الأندلسي(ت ٤٩٦هـ) مجمع الملک فہد سے نشر ہوئی تو اس کے قسم الدراسۃ میں ان جیسے لوگوں کے موقف کی تردید ہے، جو رسم عثمانی کی تبدیلی کے قائل ہیں۔

3-    على مائدة القران للسيد محمد أحمد جمال

4-       مشہور عرب محقق دکتور عبد الرحمن الشہری اس کتاب سے متعلق ملتقی اہل الحدیث میں لکھتے ہیں:

“هذا الكتاب ليس بحثاً علمياً على الطريقة العلمية المعتبرة لدى الباحثين، وإنما كتاب متهافت تضمن مجموعة من الآراء المردودة، والأقوال الباطلة. وقد التقط أقوالاً مردودة من كتب المتقدمين واحتج بها على صحة ما يذهب إليه، واتهم القراءات والقراء بالتحريف والتلاعب.

فعندما تحدث عن رسم المصحف طعن في الرسم العثماني، ودعا إلى ضرورة كتابة القرآن بالرسم الإملائي.

وقد كتب علماء الأزهر تقريراً علمياً عن هذا الكتاب عام 1368هـ ونشرته مجلة الأزهر في نفس العام، بينوا فيه ما في هذا الكتاب من الأخطاء، وتشكلت اللجنة من الشيخ محمد المدني والشيخ محمد علي النجار والشيخ عبدالفتاح القاضي رحمهم الله أجمعين.

والخلاصة أن الكتاب ليس له قيمة علمية، وفيه شبهات باطلة كثيرة أقيم عليها فلا ينصح بالقراءة فيه وفقكم الله، إلا لباحث يرغب في التنبه للشبهات ومعرفة كيفية الجواب عنها”.

یعنی الفرقان نامی کتاب کوئی علمی کتاب نہیں، بلکہ ایک صحافی کی اپنی ذہنی اپچ ہے، جس میں اس نے کتابوں سے من مانی اور مرضی کے اقوال کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کتاب سے متعلق ازہری علمائے کرام نے رپورٹ لکھی، جو 1369ھ میں مجلۃ الازہر میں نشر ہوئی، جس میں اس کتاب کی غلطیوں کو واضح کیا گیا تھا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ منکرین حدیث لوگوں کو قرآن کریم سے دوری کا طعن دیتے ہیں، لیکن خود یہ حدیث و سنت سے آگے بڑھ کر خود قرآن کریم پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ کسی کو قراءات سے مسئلہ ہے، کسی کو رسم سے پریشانی ہے، کسی کو حفظ قرآن وقت کا ضیاع محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالی سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ