سوال (3020)

عقیقہ کب کرنا چاہیے؟ اور بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنے کی روایت ثابت ہے؟ نام کب رکہنا چاہیے؟ اگر کوئی بندہ عقیقہ چودہویں دن کرنا چاہتا ہے تو کیا بال بھی عقیقہ والے دن اتارے؟

جواب

عقیقہ ساتویں دن کرنا یہ اولی اور افضل ہے، اس دن کو بلا عذر اور بلا وجہ چھوڑ نہیں دینا چاہیے، البتہ اگر کسی نے پہلے کرلیا ہے تو بھی عقیقہ ہوگیا ہے، بعد میں کیا ہے تب بھی عقیقہ ہو جائے گا، البتہ ساتویں دن اولی و افضل ہے، باقی چودھویں اور اکیسویں دن والی روایت میں کلام اور ضعف ہے، لیکن چونکہ بعد میں کبھی بھی کر سکتا ہے، اس لیے چودھویں دن یا اکیسویں دن کر سکتا ہے، سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنا بعض علماء نے اس روایت کو قبول کیا ہے، وہ علماء اس کو مستحب کہتے ہیں، بالوں کا عقیقہ کے ساتھ جوڑ اس طرح نہیں ہے کہ جب عقیقہ ہو تو بال کٹیں گے، کوئی کام کبھی بھی کر سکتے ہیں، افضل و اولی ساتویں دن کرنا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

عقیقہ کا دن ساتواں ہے اس سے پہلے عقیقہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے وقت سے پہلے قربانی کرنا اور اس دن سے پہلے عقیقہ کرنے پر کوئی نص اور قرینہ موجود ہو ہمارے علم میں نہیں ہے، اگر ساتویں دن ممکن نہیں ہے استطاعت نہیں ہے تو جب ممکن اور استطاعت ہو کر لے عقیقہ ہو جائے گا، بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنے کی کوئی روایت ثابت نہیں ہے نہ ہی یہ عمل خیر القرون میں معروف وعام تھا
البتہ بعض اہل علم اسے حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں جو محل نظر ہے کیونکہ ہر خفیف الضعف اسانید سے مروی روایت حسن لغیرہ کے مرتبہ پر نہیں پنہچتی ہے ائمہ متقدمین اس قسم کی روایت کو قرائن کے ساتھ قبول ورد کرتے تھے مطلقا قبول نہیں کرتے تھے، نام پہلے دن بھی رکھا جا سکتا ہے اس پر قرائن ودلائل موجود ہیں
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

ﻭﻟﺪ ﻟﻲ اﻟﻠﻴﻠﺔ ﻏﻼﻡ، ﻓﺴﻤﻴﺘﻪ ﺑﺎﺳﻢ ﺃﺑﻲ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ

آج رات میرے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے اور میں نے اس کا نام اپنے باپ (ابراہیم علیہ السلام )کے نام پر ابراہیم رکھا ہے۔
[صحیح مسلم، ﺑﺎﺏ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻟﺼﺒﻴﺎﻥ ﻭاﻟﻌﻴﺎﻝ ﻭﺗﻮاﺿﻌﻪ ﻭﻓﻀﻞ ﺫﻟﻚ : 2315 ، مسند أحمد بن حنبل: 13014، مسند عبد بن حمید: 1285 ،سنن أبوداود: 3126]

ﻋﻦ ﺃﺳﻤﺎء ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ: ﺃﻧﻬﺎ ﺣﻤﻠﺖ ﺑﻌﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻓﺨﺮﺟﺖ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﺘﻢ ﻓﺄﺗﻴﺖ اﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻓﻨﺰﻟﺖ ﺑﻘﺒﺎء ﻓﻮﻟﺪﺗﻪ ﺑﻘﺒﺎء، ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺖ ﺑﻪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻮﺿﻌﺘﻪ ﻓﻲ ﺣﺠﺮﻩ، ﺛﻢ ﺩﻋﺎ ﺑﺘﻤﺮﺓ ﻓﻤﻀﻐﻬﺎ، ﺛﻢ ﺗﻔﻞ ﻓﻲ ﻓﻴﻪ، ﻓﻜﺎﻥ ﺃﻭﻝ ﺷﻲء ﺩﺧﻞ ﺟﻮﻓﻪ ﺭﻳﻖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﺛﻢ ﺣﻨﻜﻪ ﺑﺘﻤﺮﺓ ﺛﻢ ﺩﻋﺎ ﻟﻪ، ﻭﺑﺮﻙ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻛﺎﻥ ﺃﻭﻝ ﻣﻮﻟﻮﺩ ﻭﻟﺪ ﻓﻲ اﻹﺳﻼﻡ
[صحیح البخاری : 3909]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻮﺳﻰ، ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﺪ ﻟﻲ ﻏﻼﻡ ﻓﺄﺗﻴﺖ ﺑﻪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺴﻤﺎﻩ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻭﺣﻨﻜﻪ ﺑﺘﻤﺮﺓ

سیدنا ابو موسی اشعری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:
میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا،میں اس کو لے کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کو ایک کھجور(کے دانے) سے گھٹی دی

صحيح مسلم : 2145 ﺑﺎﺏ اﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺗﺤﻨﻴﻚ اﻟﻤﻮﻟﻮﺩ ﻋﻨﺪ ﻭﻻﺩﺗﻪ ﻭﺣﻤﻠﻪ ﺇﻟﻰ ﺻﺎﻟﺢ ﻳﺣﻨﻜﻪ، ﻭﺟﻮاﺯ ﺗﺴﻤﻴﺘﻪ ﻳﻮﻡ ﻭﻻﺩﺗﻪ، ﻭاﺳﺘﺤﺒﺎﺏ اﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﺑﻌﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻭﺳﺎﺋﺮ ﺃﺳﻤﺎء اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻋﻠﻴﻬﻢ اﻟﺴﻼﻡ

مزید احادیث اسی جگہ اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں
جیسے صحیح مسلم : 2146 وغیرہ
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ