سوال (3498)

میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے، اسٹیٹ بینک میں جاب کرتا تھا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جاب صحیح ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صحیح نہیں، تو کیا اب جو میری ماں کو پینشن کے پیسے ملیں گے وہ لیں یا نہ لیں، اس طرح میرے والد کے اکاؤنٹ میں جو پیسے ہیں وہ ہم اللہ کے راستے میں مسجد وغیرہ کے لیے دے سکتے ہیں، یا نہیں دے سکتے، کہیں اور سے بندوبست کریں، کیونکہ ہم والد صاحب کے لیے کچھ کرنا چاہ رہے ہیں۔

جواب

اب آپ کے والد صاحب اس دنیا سے چلے گئے ہیں، لیکن ایک مسلمان کو اپنے عقیدے و عمل کے بارے میں زندگی میں فکر کرنی چاہیے، بالخصوص اپنی معیشت کے بارے میں فکر کرنی چاہیے کہ میرے پاس حلال کی کمائی ہے یا حرام کی کمائی ہے، ابھی آپ کے والد صاحب جا چکے ہیں تو اب کوئی بات مناسب نہیں ہے، اولاد کھاتی پیتی رہی ہے، وہ ترکہ لے سکتی ہے، باقی ان کے بقایا جات ظاہر ہے کہ سود پر مبنی ہیں۔ باقی بقایاجات نکال لیں۔
ان پیسوں کے حل کے لیے کچھ صورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) اس طرح کی رقم کسی ذمی غیر مسلم کو دے دیا جائے جو فتنہ پرور اور جنگجو نہ ہو۔
(2) ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی ایسے بندے کو یہ رقم دی جائے جو بندہ ناجائز چیز میں پھس گیا ہو تو اس کی اس ناجائز پیسے سے خلاصی کروائی جائے۔ جیسے کوئی سودی لین دین میں پھس گیا ہو اب وہ توبہ کرنا چاہتا ہے۔
(3) ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ رقم رفاہ عامہ میں لگادی جائے یعنی گلی اور سڑکوں پر اینٹیں وغیرہ لگا دی جائیں۔
ہندوستان کے علماء یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں ہمیشہ غیر مسلم مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں، وہاں اگر کوئی رقم نہ ہو تو ایسی رقم سے غیر مسلم کے خلاف اسلحہ وغیرہ لیا جائے۔
باقی اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایسا مال دیں، جس کے بارے میں آپ کو بھی شبہ نہ ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ