سوال (3263)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ لَهُ: إِذَا أَتَيْتَ فُسْطَاطِي فَقُمْ فَأَخْبِرْ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم يَقُولُ: اِقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِه وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ وَلَا تَغْلُوا فِيهِ. [سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2774]

عبدالرحمن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: جب تم میرے خیمے میں آؤتو کھڑے ہو جانا اور جو رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے سنا ہے وہ بیان کرنا ۔عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے سنا فرما رہے تھے: قرآن پڑھو۔ اسے کھانے کا ذریعہ مت بناؤ۔ نہ اس کے ذریعے مال نہ سمیٹو، نہ اسے چھوڑ دو۔ نہ اس میں غلو کرو.

حَدَّثَنِي سِيدَانُ بْنُ مُضَارِبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ صَدُوقٌ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْبَرَّاءُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ، فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ؟ إِنَّ فِي الْمَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى شَاءٍ، فَبَرَأَ، فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَكَرِهُوا ذَلِكَ، وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ [صحيح البخاري: 5737]

چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں ایک بچھو کا کاٹا ہوا ( لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شبہ تھا ) ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورہ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ نے فرمایا جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔

جواب

تعلیم و تعلم پر اجرت لینا یہ دلائل سے ثابت ہے، باقی صحیح مسلم کی روایت میں یہی بات آئی ہے جو آپ نے نیچے دوسرے نمبر پہ پیش کی ہے،

“إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ”

اگر آپ نے تعلیم دی ہے یا رقیہ کیا ہے تو آپ لے سکتے ہیں، اوپر والی روایت کے معانی میں ایک معنی یہ ہے کہ آپ تلاوت کرکے بھیک نہ مانگیں، جس طرح فقراء تلاوت کرکے بھیگ مانگتے ہیں، یہ صورت نہ ہو، دوسرا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کا غلط معنی پیش کرکے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر دوسروں کا مال نہ لیا ہو، جیسے یہود و نصاری تھے، جو حق بات نہیں بتاتے تھے، باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھاتے تھے، وہ چیز مراد ہے، تیسرا معنی یہ ہے کہ بندہ روحانی علاج کے بہانے دوکان کھولکے بیٹھ جائے، یہ مستحسن عمل نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اول:
اس روایت کی صحت وضعف میں اہل فن کے درمیان اختلاف ہے۔
راجح اس کا حسن لذاتہ ہونا معلوم ہوتا ہے ۔
تطبیق یہ ہے کہ جس حدیث میں كتاب الله پر اجرت لینے کا سب سے زیادہ حق ہونے کا ذکر ہے اس سے مراد شرعی رقیہ،دم پر اجرت مراد ہے۔
البتہ اس حدیث وغیرہ سے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کے جواز پر بھی استدلال کیا گیا ہے ۔
تفصیل کتب شروحات حدیثیہ میں دیکھی جا سکتی ہے
بعض آثار سلف صالحین پیش خدمت ہیں جو اس کے جواز پر واضح ہیں

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ، ﺃﻧﺎ ﺷﻌﺒﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻦ ﺃﺟﺮ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﺭﻯ ﻟﻪ ﺃﺟﺮا. ﻗﺎﻝ ﺷﻌﺒﺔ: ﻭﺳﺄﻟﺖ اﻟﺤﻜﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻟﻢ ﺃﺳﻤﻊ ﺃﺣﺪا ﻳﻜﺮﻫﻪ

جلیل القدر امام شعبہ رحمه الله تعالى نے کہا
کہ معاویہ بن قرة رحمه الله تعالى ثقة تابعي سے معلم کی اجرت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ اسے اس پر اجر ملے گا ( یعنی وہ گنہگار نہیں ہو گا)
امام شعبة رحمه الله تعالى کہتے ہیں پھر میں نے امام حکم (بن عتیبہ) رحمه الله تعالى سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:
میں نے کسی ایک کو بھی اسے مکروہ تحریمی کہتے ہوئے نہیں سنا ہے:
الجعدیات / مسند ابن الجعد:(1103) سنده صحيح
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻧﺎ اﺑﻦ ﻣﻬﺪﻱ، ﻧﺎ ﺷﻌﺒﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﻗﺮﺓ ﻋﻦ ﺃﺟﺮ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﻷﺭﺟﻮ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺃﺟﺮ
الجعديات:(1104) صحيح
امام شعبيه رحمه الله تعالى نے کہا:

ﻭﺳﺄﻟﺖ اﻟﺤﻜﻢ( بن عتيبة)، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﺳﻤﻌﺖ ﻓﻘﻴﻬﺎ، ﻳﻜﺮﻫﻪ

اور میں نےحکم بن عتیبہ رحمه الله تعالى سے پوچھا تو فرمایا: میں نے کسی بھی فقیہ کو اسے مکروہ کہتے ہوئے نہیں سنا ہے۔
الجعدیات :(1105) صحیح

حدثنا أبو بكر قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا شعبة عن الحكم قال: ما علمت أن أحدًا كرهه؛ يعني أجر المعلم مصنف ابن أبي شيبة :(22106) سنده صحيح
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ، ﺃﻧﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ ﺃﺟﺮ اﻟﻤﻌﻠﻢ
ﻗﺎﻝ ﺷﻌﺒﺔ: ﻗﺎﻝ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ: ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺸﺘﺮﻁ

امام ابراہیم نخعی رحمه الله تعالى
جن سلف صالحین کی نسبت سے کراہت کا کہہ رہے ہیں تو یہاں مراد اس سے کراہت تنزیہی ہے اسی کلام کے بعد امام شعبہ نے استدراک کرتے ہوئے ثقہ تابعی أبو الشعثاء جابر بن زيد رحمه الله تعالى فقيه قرآن سے اس کا جواز نقل کیا ہے کہ بلا شرط اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام أبو قلابہ الجرمي رحمه الله تعالى بھی اس میں کوئی حرج وگناہ نہیں سمجھتے تھے
دیکھیے التفسیر من سنن سعید بن منصور:(106) سنده صحيح

حدثنا أبو بكر قال: حدثنا إسماعيل بن علية عن خالد الحذاء قال: سألت أبا قلابة عن المعلم يعلم ويأخذ أجرا فلم ير (به) بأسا
ثقة راوی خالد الحذاء رحمه الله تعالى نے کہا: میں نے أبو قلابة الجرمى رحمه الله تعالى سے تعلیم وتدریس کرنے والے معلم کے اجرت ووظیفہ لینے کے بارے میں پوچھا ( کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے)تو آپ نے فرمایا: میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا ۔
مصنف ابن أبي شيبة :(22097) سنده صحيح
امام طاؤوس رحمه الله تعالى بھی جواز کے قائل تھے
مصنف ابن أبي شيبة :(22098) صحيح
جلیل القدر تابعی امام محمد بن سیرین رحمه الله تعالى بھی جواز کا رجحان رکھتے تھے
مصنف ابن أبي شيبة :(22109) صحيح
اسی مقام پر دیگر سلف صالحین سے کراہت تنزیہی منقول ہے ۔
امام بیھقی لکھتے ہیں:

ﻭﻛﺎﻥ اﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻋﺘﻴﺒﺔ ﻳﻘﻮﻝ: ﻟﻢ ﺃﺳﻤﻊ ﺃﺣﺪا ﻛﺮﻩ ﺃﺟﺮ اﻟﻤﻌﻠﻢ، ﻭﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ، ﻭﻋﻄﺎء، ﻭﺃﺑﻮ ﻗﻼﺑﺔ: ﻻ ﻳﺮﻭﻥ ﺑﺘﻌﻠﻴﻢ اﻟﻐﻠﻤﺎﻥ ﺑﺎﻝﺃﺟﺮ ﺑﺄﺳﺎ، ﻭﺑﻪ ﻗﺎﻝ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﺒﺼﺮﻱ، معرفة السنن والآثار:10/ 221

اور ہم نے جو اقرب الی الحق موقف رکھنے والے اسلاف امت تھے ان کا مؤقف ہی پیش کرنا بہتر جانا ہے۔
عام طور پر قرآن کریم کی تعلیم وتدریس وقراءت پر اہل علم اساتذہ،وقراء وائمہ اجرت نہیں لیتے بلکہ جو وقت دیتے ہیں یا جو وقت وعمر ان مبارک افعال کے لئے وقف کر رکھی ہے اس بنا پر لیتے ہیں جو بالکل درست اور جائز ہے کیونکہ اصل تو تمام عبادات دعوت واصلاح کے کام رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے سر انجام دیے جاتے ہیں
جب تعلیم وتدریس وقراءت کرنے والے فل ٹائم یہی ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور ان کے پاس تجارت وغیرہ کے لئے وقت میسر نہیں یا مالی حالات اس قابل نہیں کہ وہ خود سے اخراجات وضروریات زندگی چلا سکیں تو ان کی خدمت کرنا اور ان کے لئے وظیفہ مقرر کرنا ضروری ہے ۔
اگر قرآن کی تعلیم وتدریس وقراءت کا مقصد صرف مال وذر کا حصول ہو تو یہ مردود ومذموم ہے
اور اسی چیز کا ذکر ہے حدیث عبدالرحمن بن شبل رضی الله عنہ میں
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں:

ﻗﻮﻟﻪ: (ﻭﻻ ﺗﺄﻛﻠﻮا ﺑﻪ) ﺃﻱ: ﺑﻤﻘﺎﺑﻠﺔ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺃﺭاﺩ: ﻻ ﺗﺠﻌﻠﻮا ﻟﻪ ﻋﻮﺿﺎ ﻣﻦ ﺳﺤﺖ اﻟﺪﻧﻴﺎ

عمدة القاري:21/ 264
فیض القدیر :2/ 64 میں ہے

ﺃﻱ ﻻ ﺗﺠﻌﻠﻮﻩ ﺳﺒﺒﺎ للإﻛﺜﺎﺭ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﻴﺎ

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ