سوال (1727)

فوت شدہ دادا دادی یا نانا نانی وغیرہ کی طرف سے قربانی کے متعلق مشائخ عظام راہنمائی فرما دیں ؟

جواب

قربانی ایک عبادت ہے ، عبادت توقیفی ہوتی ہے ، اس لیے فوتشدگان کی طرف سے کوئی قربانی نہیں ہے ، باقی اس حوالے سے جتنے بھی ادلہ پیش کیے جاتے ہیں ، پہلی تو وہ ضعیف ہوتے ہیں ، اگر ضعیف نہیں ہوتے ہیں تو ان کا وہ مفھوم نہیں ہوتا ہے تو پھر اگر کوئی بضد ہے تو مندرجہ ذیل امام عبداللہ بن مبارک کا فتویٰ کا ذکر کیا جاتا ہے ، اس پر عمل کرے ۔
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “مجھے یہ چیز زیادہ پسند ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے ، قربانی نہ کی جائے۔اور اگر کسی نے اس کی طرف سے قربانی کر دی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے، بلکہ تمام کو صدقہ کر دے۔”
[سنن ترمذی: 1495]
یا پھر یہ پڑھ کر شریک کریں ۔

“اللهم هذا منك ولك، هذا عني و اهل بيتي”

یہ پڑھنے سے آپ کے ساتھ شریک ہو جائیں گے خواہ زندہ ہوں یا نہ ہوں ۔ یہ یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا یا بیٹوں کی طرف سے یا صحابہ کرام کی طرف سے قربانی نہیں کی ہے ، کسی صحابی نے بھی نہیں کی ہے ۔
اب تو شھدائے بدر اور شھدائے احد کی طرف سے قربانیاں کی جاتی ہیں ، کہا جاتا ہے کہ صدقے پر قیاس ہے ، صدقے کی کیا دلیل ہے ، رشتے دار یا اہل و اولاد کی گنجائش نکال سکتے ہیں ، لہذا اب تو یہ ہے کہ قیاس پر قیاس ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ میرے خیال سے اس پر غیر ضروری زور دیا جا رہا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ