سوال (3514)
ایک معاشرے میں رہتے ہوئے کسی غیر مسلم کو ہمسائے کے طور پر کندھا دینا کیسا ہے؟
جواب
احکامات کے اعتبار سے مسلم اور غیر مسلم کی بات بالکل واضح ہے، ان کو بھی ہمارا ادراک ہے، ہمیں بھی ان کا ادراک ہے، تعزیت کی جا سکتی ہے، لیکن دعائے مغفرت اس میں شامل نہ ہو، اس کے علاؤہ الفاظ ہو سکتے ہیں، جہاں تک کندھے کا مسئلہ ہے، ایسا کوئی بندہ دستیاب نہیں ہے، مجبوری بن جائے تو آپ کندھا دے دیں، بصورت دیگر وہ اپنی میت کو خود سنبھالیں، میرا خیال یہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: شیخ سنبھال تو وہی رہے ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ معاشرے کا لحاظ کرتے ہوئے کہ ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں، تو اس طرح کا معاملہ ہوجائے تو کندھا دینا کیسا ہے، سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ مسلم میت کہ بارے میں غیر مسلم ان کے ورثاء سے اجازت لیتا ہے کہ کیا میں اس کو کندہ دے سکتا ہون تو اس کا کیا حکم ہے، برائے کرم تفصیلی جواب درکار ہے، اس مسلم میت کے ورثاء کو اجازت دینے چاہیے.
جواب: بات یہ ہے کہ ابو طالب جب دنیا سے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کہا ہے کہ جاو اپنے والد کو دفن کر آجاو، میں سمجھتا ہوں کہ دو طرفہ پہلووں سے جواز تو نکل آتا ہے، لیکن اولویت اس کو حاصل ہے کہ جہاں ضرورت نہ ہو، وہاں اپنا کندھا پیش نہ کریں، باقی دعوتی پہلو غالب ہو تو ان کو اجازت دے دینی چاہیے، اصل کلمہ ہے، اس کی تصدیق ہے، باقی میں یہ ہے کہ دو طرفہ پہلووں سے جواز تو نکل آتا ہے، لیکن اولویت اس کو حاصل ہے، باقی تعزیت میں بندہ جا سکتا ہے، اس میں استغفار کے کلمات شامل نہ ہوں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ