قارئین کرام ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی دفاع کے لیے کئے پروانوں نے اپنی جانیں قربان کیں ۔ اور قیامت تک قربان کرتے رہیں گے ۔
اس تحریک کے اولین جانثار آپ کے صحابہ تھے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے عقیدہ ختم نبوت کی آبیاری کی ۔ عہد صحابہ میں اس حوالے سے جو جنگیں لڑی گئیں ان میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ سرفہرست ہے
اس تحریک میں بہت سے صحابہ نے تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی جانیں پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ذیل میں بعض ایسے صحابہ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔ تاکہ ہم خود اور ہماری اولاد ان پاکباز ہستیوں سے متعارف ہو ۔
اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہو کہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے اگر اپنی جان بھی دینی پڑے تو دی جائے لیکن کملی والے کی عظمت پر آنچ نہ آنے دیا جائے اور عقیدہ ختم نبوت کا سؤدا نہ کیا جائے ۔
1 ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ
آپ قریش کے رئیس عتبہ بن ربیعہ کے بیٹے تھے ، جو اسلام کے مخالفین میں سر فہرست تھے ۔
سیدنا ابو حذیفہ کو اللہ تعالی نے ایمان کی دولت سے نواز اور شرف صحبت عطا کی ۔
آپ حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شریک رہے اور آپ کی اہلیہ سہلہ بنت سہیل بھی رفیق تھیں ۔
غزوہ بدر میں آپ کے والد عتبہ کفار کی طرف سے اور آپ مسلمانوں کی طرف سے شریک تھے ۔
اسی طرح آپ کو بدری صحابی ہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔
عہد صدیقی میں مسلیمہ کذاب کی سر کوبی کے لیے جو فوج روانہ ہوئی اس میں شریک ہوئے اور 54 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا ۔
2 شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ
سیدنا شجاع بن وہب ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتداء میں داعی توحید کو لبیک کہا اور مشرکین مکہ کے جور و ستم سے تنگ ہوکر دوسری ہجرت حبشہ میں شرکت کی ۔
حبشہ میں جب یہ افواہ پھیلی کہ تمام قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گردن اطاعت خم کردی ہے تو وطن کی محبت پھر انہیں مکہ کھینچ لائی ، لیکن یہاں پہنچ کر افواہ غلط ثابت ہوئی ، اس لیے چند روز قیام کے بعد متلاشیان امن کے ساتھ مدینہ پہنچے۔ یہاں سیدنا اوس بن خولہ رضی اللہ عنہ سے مواخات ہوئی ۔ بدر احد اور دیگر تمام مشہور غزوات میں شریک رھے ۔
چالیس برس یا کچھ زائد عمر پاکر جنگ یمامہ میں شہادت پائی ۔
3 عبداللہ بن سہیل رضی اللہ عنہ
آپ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانے میں مشرف باسلام ہوئے ہجرت ثانیہ میں مہاجرین کے ہمراہ حبشہ گئے۔
پھر حبشہ سے واپس مکہ آئے تو ان کے والد جو ان کے اسلام لانے پر شدید غصہ تھے قابو پانے کے لیے قید کرکے ارتداد کے لیے مجبور کرنے لگے ۔
آپ نے مصلحت وقت کے خیال سے بظاہر ان کا کہا مان لیا لیکن دل میں بدستور اسلام کی محبت قائم رہی۔
غزوہ بدر کے دن اپنے والد کے ساتھ آئے والد سمجھے کہ اطاعت شعار بیٹا ان کے کہنے میں آگیا ہے ، لیکن آپ چونکہ اندر سے مومن تھے تو موقعہ پاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے ۔
اسی طرح احد ، خندق ، صلح حدیبیہ میں برابر شریک رہے ۔
خلافت صدیقی سن 12 ہجری میں یمامہ میں شریک ہوئے اور 38 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا ۔
4 عبداللہ بن مخرمہ رضی اللہ عنہ
آغاز دعوت میں مشرف باسلام ہوئے اور ہجرت حبشہ کا شرف حاصل کیا ، پھر وہاں سے مدینہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور فروہ بن عمرو بیاضی کے درمیان مواخات قائم کرائی ۔
مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے غزوہ بدر میں شریک ہوکر بدری ہونے کا شرف حاصل کیا۔
آپ کو راہ حق میں شہادت کی تمنا تھی اور اکثر کہا کرتھے تھے : اے اللہ ! مجھے تب تک موت نہ آئے جب تک میرے جسم کا ہر جوڑ تیری راہ میں زخموں سے چور نہ ہو جائے ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور بہت جلد اس کا موقعہ مل گیا آپ سیدنا ابوبکر صدیق کے دؤر میں فتنہ ارتداد کی مہم میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور مرتدین کے مقابلے میں اس بے جگری سے لڑے کہ جسم کا ہر جوڑ زخموں سے چور ہو گیا ، رمضان مبارک کا مہینا تھا ، روزہ رکھے ہوئے تھے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب غروب آفتاب کی وقت ان کی خبر لینے آئے تو آپ نے پوچھا : تم نے روزہ افطار کر لیا ہے ؟ تو کہا : میرے لیے بھی پانی لاؤ ! لیکن پانی کے پہنچتے پہنچتے وہ عقیدہ ختم نبوت پر فدا ہو چکے تھے ۔ شہادت کی وقت آپ کی عمر اکتالیس سال تھی ۔
5 ابوقیس بن حارث رضی اللہ عنہ
آپ حارث بن قیس کے بیٹے تھے یہ ان کینہ پرور لوگوں میں سے تھے جو قرآن کریم کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ لیکن ایک ایسے شخص کے گھر میں او قیس جیسا بت شکن پیدا ہوا جس نے دعوت حق کی آواز سنتے ہی لبیک کہا۔ اسلام لانے میں سبقت حاصل کی اور ہجرت حبشہ کا شرف حاصل کیا ۔
غزوہ احد و خندق وغیرہ میں شریک رہے ۔
اور جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑتے ہوئے جان دے دی ۔
6 سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ
آپ نے دعوت اسلام کے آغاز میں مکہ میں اسلام قبول کیا اور حبشہ کی طرف ہجرت کا شرف حاصل کیا ۔
مدینہ آنے کے بعد بدر احد خندق وغیرہ تمام معرکوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے ۔
6 ہجری میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آس پاس کے امراء اور سلاطین کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تو ہوزہ بن علی حنفی کے پاس خط لے جانے کی خدمت سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی ۔
اولاد میں صرف ایک لڑکا سلیط بن سلیط چھوڑ کر خود معرکہ یمامہ میں ختم نبوت پر قربان ہو گئے ۔
7 سائب بن عثمان رضی اللہ عنہ
دعوت اسلام کے شروع میں مشرف بالاسلام ہوئے ، 5 ہجری میں اپنے والد کے ہمراہ ہجرت ثانیہ میں حبشہ تشریف لے گئے ۔ واپس آنے پر عثمان بن مظعون اور ولید بن مغیرہ کی حمایت تحت مکہ میں رہے ۔ غزوہ بدر سے پہلے اپنے پورے قنبے کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ گئے آپ ﷺ نے ان کے اور حارث بن سراقہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخات قائم کرائی ۔
سائب رضی اللہ عنہ مشہور تیر انداز تھے اس لیے غزوات میں بڑے جوش و ولولہ کے ساتھ شریک ہوتے تھے ۔ چناچہ بدر ، احد ، خندق اور ان کے علاوہ تمام غزوات میں داد شجاعت دی ۔
دؤر صدیقی میں غزوہ یمامہ میں شریک ہوئے اور اس قدر زخمی ہوئے کہ کچھ دن بعد 30 سال سے کچھ اوپر کی عمر میں چل بسے ۔
8 عامر بن بکیر رضی اللہ عنہ
آپ چار بھائی تھے عامر ، عاقل ، ایاس ، خالد ۔ ارقم کے گھر میں اسلام قبول کرنے کا آغاز ان ہی چار بھایوں سے ہوا تھا ۔ چاروں بھایوں نے اسلام قبول کیا اور چاروں نے اپنے بال بچوں کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کی ۔ عامر بدر ، احد ، خندق میں رسول اللہ ص کے ہم رقاب رہے اور غزوہ یمامہ میں شہادت پائی ۔
9 ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ
آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا ۔ کبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے آپ غزوہ احد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے ۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ اور انصار کا خطیب کہا جاتا تھا ، آپ ﷺ نے انہیں جنت کی بشارت عطا فرمائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غزوہ یمامہ میں ختم نبوت پر جان فدا کی ۔
10 عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رضی اللہ عنہ
آپ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے تھے اللہ تعالی نے آپ کو اسلام کی دولت سے نوازا اسی صحابی کی ہی درخواست پر آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو کفن پہنانے کے لیے اپنا کرتہ دیا تھا اور ان ہی کی درخواست پر آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تھا جس پر اللہ تعالی نے وحی نازل کرکے منع فرما دیا ۔ آپ غزوہ بدر و احد وغیرہ میں شریک رہے ۔
اور بالآخر عہد صدیقی میں معرکہ یمامہ میں عقیدہ ختم نبوت پر قربان ہوگئے ۔
11 معن بن عدی رضی اللہ عنہ
آپ عقبہ ثانیہ میں مشرف بہ بالاسلام ہوئے ۔
عمر رضی اللہ عنہ کے بھائی زید سے مواخات ہوئی ، احد ، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب رہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ کے عہد خلافت میں خالد رضی اللہ عنہ مرتدین کی مہم پر روانہ ہوئے تو یہ بھی ہمراہ تھے وہاں سے دو سو سوار لیکر مرتدین کی دیکھ بھال کے لیے یمامہ آئے ۔ اور جب جنگ چھڑی تو اسی ہی جنگ میں جام شہادت سے سیراب ہوئے ۔
12 ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ
آپ صاحب ثرورت لوگوں میں سے تھے ، اسلام کے جذب و ولولے میں تمام مال و دولت چھوڑ کر آستان نبوی ﷺ پر پہنچے ۔
قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بنو صید اور بنو ہذیل کی طرف بھیجا ۔
عہد صدیقی میں فتنہ ارتداد کو فرو کرنے میں بڑی سرگرمی میں حصہ لیا اسی سلسلے کی جنگ یمامہ میں بڑی شجاعت سے لڑے اور شدید زخمی ہوئے بعض کے نزدیک اسی معرکے میں اور بعض کے نزدیک اجنادیں میں وغیرہ میں شہادت پائی ۔
13 حبیب بن زید رضی اللہ عنہ
آپ خزرجی انصاری ہیں آپ بیعت عقبہ میں شریک تھے یہی وہ صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلیمہ کذاب کے پاس یمن بھیجا تھا ۔ مسیلمہ جب ان سے پوچھتا کہ : تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ تو یہ جواب دیتا : ہاں ! جب وہ ان سے پوچھتا : کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ تو یہ کہتا : میں بہرا ہوں سنتا نہیں ہوں ۔ مسلیمہ نے ان سے کئی بار یہی سوال کیا لیکن آپ ہر بار یہی جواب دیتے جس پر مسیلمہ نے ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کر دیا۔
14 كلیب بن تمیم رضی اللہ عنہ
بعض نے آپ کا نام کلیب بن بشیر بن تمیم بیان کیا ہے ، آپ بنی حارث بن خزرج کے حلیف تھے ، احد اور اس کے بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہے اور یمامہ میں شہادت پائی ۔
15 یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ
آپ زید بن ثابت کے بھائی تھے آپ غزوہ بدر بقول بعض احد میں شریک تھے آپ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ ایک روایت کی مطابق یمامہ میں زخمی ہوئے اور واپس آتے ہوئے راستے میں وفات پائی ۔
16 حکم بن سعید رضی اللہ عنہ
آپ نے اسلام لانے كے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرف ھجرت کی رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام حکم سے بدل کر عبداللہ رکھا ، جس کے بعد آپ کا نام عبداللہ بن سعید بن العاص ہوا ۔ آپ کی شہادت کے متعلق اختلاف ہے ۔ بعض نے کہا : آپ نے بدر میں شہادت پائی بعض کے نزدیک موتہ اور بعض کے نزدیک یمامہ میں شہادت پائی ۔
17 مالک بن عمرو رضی اللہ عنہ
آپ بنو عبدالشمس کے حلیف تھے یہ اپنے دو بھائیوں ثقفی اور مدلج کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے ۔ آپ کو غزوہ یمامہ میں شہادت نصیب ہوئی ۔