سوال (3698)

کسی راوی کی ضمنی توثیق مثلاً ایک راوی کی کسی منفرد روایت پر کوئی محدث صحیح کا حکم لگا دے، تو کیا اس سے تمام رواۃ کی توثیق ثابت ہو جائے گی؟ جبکہ محدثین نے صراحتا اس سند کے ایک راوی کو الفاظ میں ثقہ نہ کہا ہو۔ نیز اگر یہ ضمنی توثیق معتبر ہے۔
تو کیا مطلقا معتبر ہے یا کسی اصول و قواعد کے تحت معتبر ہے۔

جواب

جن ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں اغلبا صحت و عدالت کا خیال رکھا ہے تو وہاں ہر راوی کی توثیق ہی تصور ہوگی الا یہ کہ کسی راوی پر الگ سے جرح مفسر وقادح ہو تو اسے اس قاعدہ سے خارج رکھیں گے ( صحت حدیث اور عدالت وضبط کا خیال رکھنے والے ائمہ کی کتب جیسے صحیح ابن خزیمہ، صحیح أبی عوانہ، صحیح ابن حبان وغیرہ۔
اور جو ائمہ محدثین کسی منفرد راوی کی روایت کو کی تصحیح وتحسین کریں گے اسے توثیق ضمنی ہی کہیں گے.
رہا مسئلہ اس توثیق ضمنی کے قبول ورد کا تو اسے ہم قرائن کے ساتھ قبول ورد کریں گے۔
مثلا ایک راوی صحیح ابن خزیمہ ،صحیح ابن حبان وغیرہ میں آ رہا ہے اور اس کی صریح توثیق نہیں اور اس سے ثقات بھی روایت کرتے ہیں تو عدم جرح کے سبب ایسا راوی حسن الحدیث قرار پائے گا البتہ ایسے راوی کی روایت مطلقا قبول نہیں کی جائے گی یعنی احکام میں تفرد کی صورت میں ہاں متابعت اور شواہد موجود ہوں تو تب قبول کر لیں گے۔
ایسے ہی ائمہ صحاح نے کسی راوی سے روایت لی اور اس پر ائمہ علل سے جرح مفسر ہو یا مبھم ہو تو یہاں جرح ہی مقدم ہو گی کیونکہ ائمہ علل و نقاد کا جرح مطلق کرنا بتاتا ہے کہ علی الراجح یہ راوی ضعیف الحدیث ناقابل حجت ہی ہے۔
ایسے راوت کی مرویات کا تتبع و دراسہ کر کے معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا اس کا کیا مرتبہ بنے گا۔
آپ نے پوچھا کہ آیا مطلقا یہ ضمنی توثیق معتبر ہے تو عرض ہے کہ یہ قرائن سے فیصلہ کریں گے،
تو یہ سب قرائن ہی ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ