سوال (3542)
مشرک کے پیچھے نماز کا پڑھنا درست ہے یا غلط ہے؟
جواب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“مَا كَانَ لِلمُشرِكِينَ اَن يَّعمُرُوا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِينَ عَلٰٓى اَنفُسِهِم بِالـكُفرِ اُولٰۤئِكَ حَبِطَت اَعمَالُهُم وَ فِى النَّارِ هُم خٰلِدُونَ” [سورة التوبة: 17]
«مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں»
مشرک مسجد کو آباد ہی نہیں کر سکتا ہے تو نماز کیا چیز ہے، عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے، مشرک کا معنی ہے کہ وہ غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتا ہے، جب ایک شخص کا مشرک ہونا ثابت ہو جائے تو پھر اس کی نماز کا کوئی تصور نہیں ہے، جب اس کی نماز کا ہی تصور نہیں ہے تو اس کے پیچھے نماز کا بھی تصور نہیں ہے، لیکن یہ واضح ہو کہ وہ مشرک ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جو شخص عالم ہے اور بلا تاویل کے کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور جو اہل بدعت ہیں اور ان کی بدعت کفر اکبر کے درجہ کی نہیں ہے تو ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنا افضل و بہتر ہے کہ اتباع سنت کا یہی تقاضا ہے۔
اس پر میرا مفصل مضمون ہے۔
جو پیش خدمت ہے، قبلہ رخ تھوکنے کی ممانعت موجود ہے دیکھیے
[صحیح بخاری: 1213، صحیح مسلم: 547] رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے والے امام کے بارے فرمایا تھا لا یصلی لکم یہ تمہیں نماز نہ پڑھاے اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں انك آذیت الله ورسوله کہ تو نے الله اور اس کے رسول کو اذیت وتکلیف دی ہے۔ [سنن ابوداود : 481 سندہ حسن لذاتہ]
یہ حدیث شرک وکفرسے ہلکے جرم پر نماز میں امامت نہ کروانے پر بین دلیل ہے اوریہ قبلہ رخ تھوکنے والاعمل الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف کا سبب بننے ولا عمل ہے جس کی بنیاد پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے امام کو حکما امامت سے معزول کروادیا تو شرک وکفر پر مبنی عقائد ونظریات رکھنے والا امام( جو تاویل کیے بغیر کسی بھی شرک کی قسم میں مبتلا ہے ) جب کہ اس کی اپنی نماز بھی عقیدہ کی خرابی کی وجہ سے قبول نہیں تو اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھنا جائز ہو گی وہ کس طرح الله تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند ہوگا۔
کیا ہم اس کفرو شرک میں مبتلا امام کے پیچھے نماز ادا کر کے اسے عزت نہیں دے رہے اس کے ان کتاب وسنت اور سلف صالحین کے متفقہ عقائد کے خلاف جو عقائد ہیں ان کی تائید نہیں کر رہے، کیا غلط عقائد کا حامل امام کتاب وسنت کی روشنی میں امامت کا اہل ہے کیا
من عمل عملا لیس عليه امرنا فھو رد
[صحیح مسلم: 1718] کی روشنی میں اور من آحدث فی دیننا مالیس فیہ فھو رد۔ شرح السنہ: 103 صحیح۔ کی رو سے ان مقلدین کے عقائد جدیدہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کے عقائد ونظریات سے موافق ہیں یا مخالف جب ہیں بھی مخالف تو پھر یقینامردود ہیں کہ نہیں کیا ایسے عقائد کے حامل کو امام بنانا اور اس کی اقتدا کرنا توحیدوسنت سے محبت وعقیدت کی دلیل ہے کیا عقیدہ الولاء والبراء ایسوں کی اقتداء کی اجازت دیتا ہے امت کے جمھور سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ بد عقیدہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
( یعنی بدعت مکفرہ جو کفر اکبر کے درجے کو پہنچے، اور دوسرے اہل بدعت کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے اتباع سنت ،تعامل سلف صالحین کے سبب اجتناب کریں جیسے ان کی مجالس میں شرکت سے سلف صالحین نے اجتناب کرنے کا فرمایا اور خود بھی عمل کیا۔
( یاد رہے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے عہد میں محاصرے جیسی صورت یا جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہو وہاں اضطراری حالت میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا جواز ہے مطلقا ہرگز نہیں ہے)
یہ عبدالله بن عمر رضی الله عنه کی سنت سے محبت دیکھیے کہ موذن نے ظہر یاعصرکی اذان میں تثویب کہہ دی یعنی الصلوة خیرمن النوم تو ابن عمر رضی الله عنه فرماتے ہیں اخرج بنا فان ھذہ بدعة کہ ہمیں یہاں سے باہر لے جاؤ پس بلاشبہ اذان میں یہ تثویب بدعت ہے۔ (سنن ابوداود: 538)
ابن عمر رضی الله عنه تو بدعتی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے تھے۔ (سنن ترمذی: 2152) وغیرہ
اسی طرح بدعتی کی تعظیم اسلام کو گرانے میں مدد کرنا ہے۔ حدیث دیکھیے الشریعہ للآجری (2040 )
اس کے علاوہ اس تعلق سے میں کئ آثار اس مجموعہ میں پوسٹ کرچکا ہوں۔
قرآن پاک کی آیت لئن اشرکت کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی شرک کیا تو آپ کے عمل ضائع کر دیے جائیں گے القرآن۔ اسی طرح کی دیگر آیتیں۔
آخر پر صرف ایک بات لکھوں گا اہل سنت کے امام امام اسماعیل بن محمد بن فضل الاصبہانی رحمه الله کیا خوب کہا آپ کہتے ہیں:
وأصحاب الحدیث لا یرون الصلوٰۃ خلف أھل البدع لئلا یراہ العامة فيفسدون بذلك۔
اور اصحاب الحدیث اہل بدعت کے پیچھے نماز ادا کرنے کے قائل نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ کہیں عام لوگ یہ سلسلہ دیکھ کے فساد میں مبتلا نہ ہو جائیں یعنی عوام الناس گمراہ نہ ہو جائیں ( کہ وہ سبھی کو اہل توحید وسنت اہل حق سمجھنے لگیں اور گمراہ ہو جائیں عقائد خراب کر لیں جس طرح ان کے اپے خراب ہیں) الحجة فى بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة :2/ 508۔
اس لیے جس کے عقائد ونظریات کتاب وسنت اور صحابہ کرام وسلف صالحین سے نہیں ملتے اس کی اقتداء میں نماز ایک تو توحید وسنت اور سلف صالحین سے محبت کے ثبوت میں نہیں پڑھنی دوسرا کہ ازروے کتاب وسنت اہل شرک کے بلا تاویل شرکیہ اعمال عنداللہ مقبول نہیں ہیں اور یہ لوگ باری تعالیٰ کو پسند بھی نہیں الا کہ یہ سچی توبہ کر کے موحد ومتبع سنت بن جائیں۔ جس طرح صحابہ کرام اور سلف صالحین تھے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ