سوال (3542)

مشرک کے پیچھے نماز کا پڑھنا درست ہے یا غلط ہے؟

جواب

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“مَا كَانَ لِلمُشرِكِينَ اَن يَّعمُرُوا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِينَ عَلٰٓى اَنفُسِهِم بِالـكُفرِ‌ اُولٰۤئِكَ حَبِطَت اَعمَالُهُم وَ فِى النَّارِ هُم خٰلِدُونَ” [سورة التوبة: 17]

«مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں»
مشرک مسجد کو آباد ہی نہیں کر سکتا ہے تو نماز کیا چیز ہے، عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے، مشرک کا معنی ہے کہ وہ غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتا ہے، جب ایک شخص کا مشرک ہونا ثابت ہو جائے تو پھر اس کی نماز کا کوئی تصور نہیں ہے، جب اس کی نماز کا ہی تصور نہیں ہے تو اس کے پیچھے نماز کا بھی تصور نہیں ہے، لیکن یہ واضح ہو کہ وہ مشرک ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جو شخص عالم ہے اور بلا تاویل کے کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور جو اہل بدعت ہیں اور ان کی بدعت کفر اکبر کے درجہ کی نہیں ہے تو ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنا افضل و بہتر ہے کہ اتباع سنت کا یہی تقاضا ہے۔
اس پر میرا مفصل مضمون ہے۔
جو پیش خدمت ہے، قبلہ رخ تھوکنے کی ممانعت موجود ہے دیکھیے
[صحیح بخاری: 1213، صحیح مسلم: 547] رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے والے امام کے بارے فرمایا تھا لا یصلی لکم یہ تمہیں نماز نہ پڑھاے اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں انك آذیت الله ورسوله کہ تو نے الله اور اس کے رسول کو اذیت وتکلیف دی ہے۔ [سنن ابوداود : 481 سندہ حسن لذاتہ]
یہ حدیث شرک وکفرسے ہلکے جرم پر نماز میں امامت نہ کروانے پر بین دلیل ہے اوریہ قبلہ رخ تھوکنے والاعمل الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف کا سبب بننے ولا عمل ہے جس کی بنیاد پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے امام کو حکما امامت سے معزول کروادیا تو شرک وکفر پر مبنی عقائد ونظریات رکھنے والا امام( جو تاویل کیے بغیر کسی بھی شرک کی قسم میں مبتلا ہے ) جب کہ اس کی اپنی نماز بھی عقیدہ کی خرابی کی وجہ سے قبول نہیں تو اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھنا جائز ہو گی وہ کس طرح الله تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند ہوگا۔
کیا ہم اس کفرو شرک میں مبتلا امام کے پیچھے نماز ادا کر کے اسے عزت نہیں دے رہے اس کے ان کتاب وسنت اور سلف صالحین کے متفقہ عقائد کے خلاف جو عقائد ہیں ان کی تائید نہیں کر رہے، کیا غلط عقائد کا حامل امام کتاب وسنت کی روشنی میں امامت کا اہل ہے کیا

من عمل عملا لیس عليه امرنا فھو رد

[صحیح مسلم: 1718] کی روشنی میں اور من آحدث فی دیننا مالیس فیہ فھو رد۔ شرح السنہ: 103 صحیح۔ کی رو سے ان مقلدین کے عقائد جدیدہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کے عقائد ونظریات سے موافق ہیں یا مخالف جب ہیں بھی مخالف تو پھر یقینامردود ہیں کہ نہیں کیا ایسے عقائد کے حامل کو امام بنانا اور اس کی اقتدا کرنا توحیدوسنت سے محبت وعقیدت کی دلیل ہے کیا عقیدہ الولاء والبراء ایسوں کی اقتداء کی اجازت دیتا ہے امت کے جمھور سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ بد عقیدہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
( یعنی بدعت مکفرہ جو کفر اکبر کے درجے کو پہنچے، اور دوسرے اہل بدعت کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے اتباع سنت ،تعامل سلف صالحین کے سبب اجتناب کریں جیسے ان کی مجالس میں شرکت سے سلف صالحین نے اجتناب کرنے کا فرمایا اور خود بھی عمل کیا۔
( یاد رہے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے عہد میں محاصرے جیسی صورت یا جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہو وہاں اضطراری حالت میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا جواز ہے مطلقا ہرگز نہیں ہے)
یہ عبدالله بن عمر رضی الله عنه کی سنت سے محبت دیکھیے کہ موذن نے ظہر یاعصرکی اذان میں تثویب کہہ دی یعنی الصلوة خیرمن النوم تو ابن عمر رضی الله عنه فرماتے ہیں اخرج بنا فان ھذہ بدعة کہ ہمیں یہاں سے باہر لے جاؤ پس بلاشبہ اذان میں یہ تثویب بدعت ہے۔ (سنن ابوداود: 538)
ابن عمر رضی الله عنه تو بدعتی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے تھے۔ (سنن ترمذی: 2152) وغیرہ
اسی طرح بدعتی کی تعظیم اسلام کو گرانے میں مدد کرنا ہے۔ حدیث دیکھیے الشریعہ للآجری (2040 )
اس کے علاوہ اس تعلق سے میں کئ آثار اس مجموعہ میں پوسٹ کرچکا ہوں۔
قرآن پاک کی آیت لئن اشرکت کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی شرک کیا تو آپ کے عمل ضائع کر دیے جائیں گے القرآن۔ اسی طرح کی دیگر آیتیں۔
آخر پر صرف ایک بات لکھوں گا اہل سنت کے امام امام اسماعیل بن محمد بن فضل الاصبہانی رحمه الله کیا خوب کہا آپ کہتے ہیں:

وأصحاب الحدیث لا یرون الصلوٰۃ خلف أھل البدع لئلا یراہ العامة فيفسدون بذلك۔

اور اصحاب الحدیث اہل بدعت کے پیچھے نماز ادا کرنے کے قائل نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ کہیں عام لوگ یہ سلسلہ دیکھ کے فساد میں مبتلا نہ ہو جائیں یعنی عوام الناس گمراہ نہ ہو جائیں ( کہ وہ سبھی کو اہل توحید وسنت اہل حق سمجھنے لگیں اور گمراہ ہو جائیں عقائد خراب کر لیں جس طرح ان کے اپے خراب ہیں) الحجة فى بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة :2/ 508۔
اس لیے جس کے عقائد ونظریات کتاب وسنت اور صحابہ کرام وسلف صالحین سے نہیں ملتے اس کی اقتداء میں نماز ایک تو توحید وسنت اور سلف صالحین سے محبت کے ثبوت میں نہیں پڑھنی دوسرا کہ ازروے کتاب وسنت اہل شرک کے بلا تاویل شرکیہ اعمال عنداللہ مقبول نہیں ہیں اور یہ لوگ باری تعالیٰ کو پسند بھی نہیں الا کہ یہ سچی توبہ کر کے موحد ومتبع سنت بن جائیں۔ جس طرح صحابہ کرام اور سلف صالحین تھے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سوال: بدعتی یا مشرک کے پیچھے نماز کا حکم کیا ہے؟

جواب: بدعقیدہ شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا غلط ہے. [الشريعة للآجري: 2040]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ»

رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم و نصرت کی تو اس نے اسلام کے گرانے پر معاونت کی۔

الشريعة للآجري: ٥/‏٢٥٤٣] سندہ، حسن

مشرک، بدعتی کو امام بنانا یہ اس کی تعظیم کرنا ہی ہے، جوکہ شرعا حرام ہے۔ لہذا بدعتی/ مشرک کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

یہ تو عجیب دلیل ہے ابوزرعہ صاحب۔
اس کا مطلب ایسے شخص کو حکمران تسلیم کرنا تو مزید اس کی تعظیم ہے، لہذا اس دلیل سے حکمرانوں کی اطاعت بھی گئی۔۔!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

جی دونوں صورتیں مختلف ہیں۔ ایک چیز ہے کہ باپ، چچا بدعتی ہو تو اس کی عزت و تکریم نسب کی وجہ سے ہو۔ وہ الگ ہے۔ لیکن دینی اعتبار سے ایک شخص کی تعظیم کرنا یہ الگ ہے جیسے اس کو منبر پر جمعہ کے لیے کھڑا کرنا، کسی دینی کانفرس میں اس کا استقبال کرنا اسے مسند پر بٹھانا وغیرہ۔ اس پر عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی وضاحت ریکارڑ ہے غالبا۔
جبکہ حکمران جو بھی مسلمان مسلط ہو جائے اسے تسلیم کرنے کا حکم ہے۔
بدعتی کو مصلی پر کھڑا کرنا، اسے امام بنانا، یہ تو بلاشبہ تعظیم ہے اس کی۔ جو مذموم ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل: آپ کیا کہتے اس بارے میں کہ نماز ہو جاتی ہے؟
جواب: ہر وہ بندہ جو دائرہ اسلام میں ہے، اور اس کی علماء نے تکفیر نہیں کی، اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس کی اپنی ہو جاتی ہے، اس کے پیچھے بھی ہو جاتی ہے.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: شیخ پھر یہ علماء کے قول اور فعل میں تضاد نہیں کیونکہ علماء تو خود صرف اپنی مساجد میں ہی نماز پڑھاتے ہیں؟ یا اس بات کا اطلاق صرف عوام پر ہوتا ہے؟
جواب: علماء کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے، علماء ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔
لیکن نماز ہونے نہ ہونے کا فتوی دینا ایک الگ بات ہے، دوسرا کسی کو ترغیب دینا یا خود اپنی قریبی مسجد چھوڑ کر کسی اور کے پیچھے جا کر نماز پڑھنا یا پڑھانا اور بات ہے.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: اگر بدعتیوں کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے تو پھر اہل حدیثوں کو اپنی علیحدہ سے مسجدیں بنانے کی کیا ضرورت؟
جواب: کیونکہ بدعتی لوگ انہیں اپنے پیچھے نماز پڑھنے نہیں دیتے تھے، اور جو کوئی مسجد میں داخل ہو جاتا تو مسجدیں دھوتے تھے…!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: آپ کے “تھے” سے لگ رہا ہے اب حالات سازگار ہیں! مزیداھل حدیث مسجدیں نہ بنائیں!
جواب: اس کا مطلب ہے کہ ایک اہل حدیث مسجد بننے کے بعد دوسری اہل حدیث مسجد نہیں بنانی چاہیے، کیونکہ ایک مسجد کافی نہیں؟

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

محترم بھائی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے بدعتیوں کے پیچھے خوشی سے نماز کا فتویٰ نہیں دیا جاتا بلکہ مجبوری میں دیا جاتا ہے
پس اس وضاحت کے بعد آپ کے اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل: شیخ اسی سے متعلق میرا ایک سوال ہے، میری آفس سے 1:15 پر چھٹی ہوتی ہے اور قریب میں يا راستے میں جتنی بھی اہل حدیث مساجد آتی ہیں وہاں ظہر کی نماز 1 بجے ہے، تو مجھے کیا کرنا چاہئے کیا میں گھر پر نماز پڑھ لوں یا پھر کسی حنفی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھوں؟
جواب: جس بھی مسجد میں نماز باجماعت کا موقع ملے پڑھ لیں، یہ انفرادی یا گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
دوسرے مسلک کے پیچھے نماز پڑھنے کی بجائے اکیلے نماز پڑھ لیں، یہ موقف انتہائی کمزور ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: شیخ اسی لحاظ سے ایک سوال ہے کہ ہمارے گاؤں میں چند ایک مسجد ہیں ایک مسجد بلکل میرے گھر کے ساتھ ہے اس میں فجر مغرب اور عشاء کی جماعت تو ہوتی ہے مگر ظھر و عصر میں نہیں ہوتی جماعت اور تھوڑے فاصلے پے جامع مسجد ہے اس میں تمام نمازوں میں بھترین جماعت ہوتی ہے کیا اس صورت میں جو مسجد گھر کے ساتھ ہے اس میں نماز پڑھنا بھتر ہے یا جامع مسجد جانا چاہیے؟
جواب: اصل جواب تو یہی ہے کہ دونوں میں سے جس میں بھی پڑھیں گے، درست ہے۔
لیکن بعض دفعہ قریبی مسجد میں نماز پڑھنا اس کی آبادکاری کا ذریعہ بنتا ہے، اس وجہ سے اس میں نماز پڑھنا افضل ہو گا۔
اسی طرح اگر خشوع و خضوع کسی خاص جگہ زیادہ ہے تو وہاں نماز پڑھنا بہتر ہو گا۔
اسی طرح جتنی دور چل کر جائیں گے، یہ بھی اجر میں اضافے کا سبب بنے گا۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

أحسنتم وبارك فيكم وعافاكم

اگرچہ بدعت غیر مکفرہ کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

مگر اہل علم وفضل کو تب بھی صرف اہل حق جو سلف صالحین کے منہج وعقیدہ پر قائم ہیں کی اقتداء میں ہی نماز پڑھنے کی ترغیب وتعلیم دینی چاہیے ہے۔

اور اہل بدعت کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے اجتناب کرنا ہی بہتر ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو وہ اہل بدعت کو بھی اہل حق سمجھیں گیں اور ان کے غلط عقائد ونظریات کا شکار ہو جائیں گے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ سلف صالحین نے مستقل کبھی اہل بدعت کے پیچھے نماز ادا کی ہو
اور وہ بھی اج کے اہل بدعت کی طرح کے بدعتی ہوں۔

اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ اجتناب کیا جائے مگر اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو اس پر سخت گرفت نہیں کی جائے بلکہ اسے مسئلہ کی نزاکت وحساسیت سمجھا دی جائے۔

سلف صالحین تو اہل بدعت سے بہت دور رہنے کی تعلیم وترغیب کرتے تھے۔
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

جو شخص عالم ہے اور بلا تاویل کے کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے
اور جو اہل بدعت ہیں اور ان کی بدعت کفر اکبر کے درجہ کی نہیں ہے تو ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنا افضل و بہتر ہے کہ اتباع سنت کا یہی تقاضا ہے ۔اس پر میرا مفصل مضمون ہے۔

جو پیش خدمت ہے۔

قبلہ رخ تھوکنے کی ممانعت موجود ہے دیکھئیے صحیح بخاری(1213) صحیح مسلم(547)  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے والے امام کے بارے فرمایا تھا لا یصلی لکم  یہ تمہیں نماز نہ پڑھاے اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں انك آذیت الله ورسوله کہ تو نے الله اور اس کے رسول کو اذیت وتکلیف دی ہے۔سنن ابوداود(481) سندہ حسن لذاتہ۔
یہ حدیث شرک وکفرسے ہلکے جرم پر نماز میں امامت نہ کروانے پر بین دلیل ہے اوریہ قبلہ رخ تھوکنے والاعمل الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف کا سبب بننے ولا عمل ہے جس کی بنیاد پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے امام کو حکما امامت سے معزول کروادیا تو شرک وکفر پر مبنی عقائد ونظریات رکھنے والا امام( جو تاویل کیے بغیر کسی بھی شرک کی قسم میں مبتلا ہے ) جب کہ اس کی اپنی نماز بھی عقیدہ کی خرابی کی وجہ سے قبول نہیں تو اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھنا جائز ہو گی وہ کس طرح الله تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند ہوگا۔

کیا ہم اس کفرو شرک میں مبتلا امام کے پیچھے نماز ادا کر کے اسے عزت نہیں دے رہے اس کے ان کتاب وسنت اور سلف صالحین کے متفقہ عقائد کے خلاف جو عقائد ہیں ان کی تائید نہیں کر رہے۔
کیا غلط عقائد کا حامل امام کتاب وسنت کی روشنی میں امامت
کا اہل ہے کیا من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد صحیح مسلم (1718) کی روشنی میں اور من آحدث فی دیننا مالیس فیہ فھورد ۔شرح السنہ(103) صحیح ۔ کی رو سے ان مقلدین کے عقائد جدیدہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کے عقائد ونظریات سے موافق ہیں یا مخالف جب ہیں بھی مخالف تو پھر یقینامردود ہیں کہ نہیں کیا ایسے عقائد کے حامل کو امام بنانا اور اس کی اقتدا کرنا توحیدوسنت سے محبت وعقیدت کی دلیل ہے کیا عقیدہ الولاء والبراء ایسوں کی اقتداء کی  اجازت دیتا ہے امت کے جمھور سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ بد عقیدہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
(یعنی بدعت مکفرہ جو کفر اکبر کے درجے کو پہنچے، اور دوسرے اہل بدعت کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے اتباع سنت، تعامل سلف صالحین کے سبب اجتناب کریں جیسے ان کی مجالس میں شرکت سے سلف صالحین نے اجتناب کرنے کا فرمایا اور خود بھی عمل کیا۔
(یاد رہے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے عہد میں محاصرے جیسی صورت یا جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہو وہاں اضطراری حالت میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا جواز ہے مطلقا ہرگز نہیں ہے)

یہ عبدالله بن عمر رضی الله عنه کی سنت سے محبت دیکھیے کہ موذن نے ظہر یاعصرکی اذان میں تثویب کہہ دی یعنی الصلوة خیرمن النوم تو ابن عمر رضی الله عنه فرماتے ہیں اخرج بنا فان ھذہ بدعة  کہ ہمیں یہاں سے باہر لے جاؤ پس بلاشبہ اذان میں یہ تثویب بدعت ہے سنن ابوداود(538)
ابن عمر رضی الله عنه تو بدعتی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے تھے سنن ترمذی(2152) وغیرہ
اسی طرح بدعتی کی تعظیم اسلام کو گرانے میں مدد کرنا ہے حدیث دیکھیے الشریعہ للآجری (2040 )
اس کے علاوہ اس تعلق سے میں کئ آثار اس مجموعہ میں پوسٹ کرچکا ہوں۔
قرآن پاک کی آیت لئن اشرکت کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی شرک کیا تو آپ کے عمل ضائع کر دیے جائیں گے القرآن ۔اسی طرح کی دیگر آیتیں۔
آخر پر صرف ایک بات لکھوں گا اہل سنت کے امام امام اسماعیل بن محمد بن فضل الاصبہانی رحمه الله کیا خوب کہا آپ کہتے ہیں : وأصحاب الحدیث لا یرون الصلوٰۃ خلف أھل البدع لئلا یراہ العامة فيفسدون بذلك۔
اور اصحاب الحدیث اہل بدعت کے پیچھے نماز ادا کرنے کے قائل نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ کہیں عام لوگ  یہ سلسلہ دیکھ کے فساد میں مبتلا نہ ہو جائیں یعنی عوام الناس گمراہ نہ ہو جائیں ( کہ وہ سبھی کو اہل توحید وسنت اہل حق سمجھنے لگیں اور گمراہ ہو جائیں عقائد خراب کر لیں جس طرح ان کے اپے خراب ہیں)  الحجة فى بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة:2/ 508۔
اس لیے جس کے عقائد ونظریات کتاب وسنت اور صحابہ کرام وسلف صالحین سے نہیں ملتے اس کی اقتداء میں نماز ایک تو توحید وسنت اور سلف صالحین سے محبت کے ثبوت میں نہیں پڑھنی دوسرا کہ ازروے کتاب وسنت اہل شرک کے بلا تاویل شرکیہ اعمال عنداللہ مقبول نہیں ہیں اور یہ لوگ باری تعالیٰ کو پسند بھی نہیں الا کہ یہ سچی توبہ کر کے موحد ومتبع سنت بن جائیں جس طرح صحابہ کرام اور سلف صالحین تھے۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: آپ کے نزدیک بدعتیوں کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟
جواب: وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

حافظ صاحب کی طرف سے وضاحت ہو چکی ہے۔

جو امام شرک اکبر ،کفر اکبر کا عمدا مرتکب نہیں اس کے پیچھے اگر کبھی کوئی نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی البتہ نہ پڑھنا بہتر ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ