سوال (3179)

کیا نماز میں اپنی زبان میں دعائیں کر سکتے ہیں یہ ایک نیا مسئلہ نمازیوں میں اختلاف کا سبب بن گیا ہے، اس کا کیا حل ہے۔ ضرور بتائیں۔

جواب

ہماری معلومات کے مطابق حالت نماز میں خواہ وہ نفل ہو یا فرض ہو، سفر کی نماز ہو یا حضر کی نماز ہو، انفرادی ہو یا اجتماعی ہو، کسی دوسری زبان میں دعا کرنا بلا دلیل ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کچھ لوگوں نے یہ موقف بنا رکھا ہے کہ اگر کوئی ابتدا نماز میں یہ کہے کہ “خدائے بزرگ تر آست” اللہ اکبر کی جگہ کہہ سکتے ہیں، بس جیسے وہ غلط ہے، ایسے ہی یہ بھی غلط ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

دین اسلام ایک مکمل دین ہے، اس میں کمی و زدیاتی کی کسی کو اجازت نہیں ہے، جو دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا، وہ قرآن و حدیث ہے، قرآن و حدیث میں جو بھی عبادات ہیں، ان کے طریقے، اوقات، ہیئت اور کیفیت کتاب و سنت میں موجود ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان عبادات پر عمل کرکے دیکھایا ہے، صحابہ کرام نے وہ عبادات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے ہیں، عملاً ان عبادات کو نقل بھی کیا ہے، نماز کا حکم قرآن و حدیث دونوں میں آیا ہے، نماز کو عملاً بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کر دیکھایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ

“وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي”

نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ [صحیح بخاری: 631]
اس نماز کو صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے من و عن نقل کیا ہے، یہ نماز نقل در نقل ہوتی آ رہی ہے، اس نماز کو محدثین نے محفوظ کیا ہے، یہ نماز جیسی جو عبادت ہے، یہ عربی میں ہی ادا کی جائے گی، کیونکہ دیں مکمل ہوچکا ہے، کسی اور زبان میں نماز کی اجازت نہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، نہ ہی کسی صحابی نے نقل کیا ہے، قرآن و حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز جس حیثیت و کیفیت میں ملی ہے، ویسے ہی قبول کرنی ہے، دیکھیں قرآن پاک عربی میں نازل ہوا ہے، اس کو کسی بھی زبان سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے ترجمہ و تفسیر کا اجر تو ملے گا، لیکن کسی اور زبان میں قرآن کو پڑھنا تلاوت نہیں کہلائے گا، نماز ساری عربی میں ہی نازل ہوئی ہے، عربی میں نماز کے کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیے ہوں، نماز تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام تک عربی زبان میں ہے، یہ کہنا ہے کہ نماز کسی زبان میں بھی ادا کی جا سکتی ہے، نماز کی ابتداء یا بعض حصہ کسی زبان میں ادا کیا جا سکتا ہے، یہ شریعت سازی ہے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے، جس کی سخت وعیدیں ہیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سوال: نوافل یا تہجد میں سجدے میں بندہ اردو میں بندہ دعا مانگ سکتا ہے، عربی میں اگر دعائیں نہ آتی ہوں تو اپنی زبان میں مانگ سکتے ہیں؟

جواب: ہماری تحقیق میں نماز میں عربی کے علاؤہ کوئی گنجائش نہیں ہے، آپ ہمت کریں، دعائیں یاد کریں، پہلے آپ ارکان کی دعائیں یاد کریں، باقی دعائیں بھی یاد کرکے سجدہ اور تشھد میں پڑھ سکتے ہیں، اگر زیادہ کرنا ہے تو تکرار کریں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: مولانا اسحاق نے بتایا ہے شاید کے آپ فرض نماز میں بھی اپنی زبان میں دعا کر سکتے ہیں، اگر سلام پھیرنے کے بعد بندہ سجدہ کرے اور اس میں اردو میں دعا مانگ لے تو ٹھیک ہے؟

جواب: یہ ایک طرز عمل مستقل اب ہونے لگا ہے، اس کی بھی دلیل تلاش کرنی پڑے گی، کبھی کبھار تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن لوگوں نے اس کو مستقل عمل کے طور پر کرنے لگے ہیں، یہ بھی عمل ہے، کبھی کبھی خیر ہے، ورنہ عموماً بیٹھ کر دعا کرنی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ