سوال (2018)

نظر لگنے سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس کی نظر لگی ہے، وہ اپنا منہ دھو کر پانی دے، وہ پانی اس پر ڈال دیا جائے جس کو نظر لگی ہے، کیا یہ کرنا درست ہے؟

جواب

اگر پتا چل جائے کہ فلاں شخص کی نظر لگی ہے تو جس کی نظر لگی ہے، اس سے غسل کروا کر اس کے غسل کا پانی مریض پر ڈالا جائے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا”
[سنن ترمذی: 2062]

اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت کرتی ہے اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں تو تم غسل کر لو۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

سائل:
لیکن وضو یا منہ دھونے کے حوالے سے کوئی روایت صحیح یا ضعیف موجود ہے؟ یا پھر لوگوں نے یوں ہی مشہور کیا ہوا ہے؟
جواب:
کچھ باتیں لوگوں میں مشہور کردی جاتی ہیں یا پھر ہم بعض علماء کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں، جو اپنے طریق شواہد یا تجربات کی بنا پر لوگوں کو کچھ کرنے کے لیے کہتے ہیں، یا پھر عامل اپنے واہ واہ کے لیے کوئی طریقہ ایجاد کردیتا ہے، یہاں بھی اس طرح کا معاملہ ہے، باقی غسل یا وضوء کی بحث موجود ہے، اس سے وضوء کروایا جائے، اس پانی کو ایک ٹب میں جمع کرکے مریض کے اوپر ڈال دیا جائے، لیکن اگر نظر لگانے والے کا پتا نہیں چلتا ہے تو احادیث مبارکہ میں نظر بد سے بچنے کی دعائیں ہیں ان کا اہتمام کریں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ