سوال

قنوتِ وتر رکوع سے پہلے پڑھنی چاہیے، یا رکوع کے بعد ؟ افضل اور راجح طریقہ کیا ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

عبادات میں قنوت کی دو اقسام ہیں:

1:قنوت نازلہ                 2:قنوت وتر

ان دونوں کے  طریقہ کار اور خصوصیات کی تفصیل  درجِ ذیل ہے:

  • قنوت نازلہ : سے مراد وہ دعا ہے، جو  جنگ، مصیبت، وبائی امراض اور غلبہ دشمن کے وقت دورانِ نماز پڑھی جاتی ہے۔ مذکورہ  ہنگامی حالات کے پیشِ نظر قنوتِ نازلہ کی مندرجہ ذیل  تفصیلات ہیں:
  1. اسے نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھا جاتا ہے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر میں رکوع کے بعد کفار پر لعنت کرتے تھے،  اوریہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا۔[ صحیح بخاری:4559]
  2. دورانِ جماعت امام اسے باآوازبلند پڑھتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قنوتِ نازلہ باآواز بلند پڑھا کرتے تھے۔[ صحیح بخاری:4560]
  3. قنوت نازلہ ہاتھ اٹھا کر پڑھی جاتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر قنوت نازلہ کیا کرتے تھے۔[ صحيح مسلم:913]
  4. امام جب قنوت کر رہا ہو، تو مقتدی اس پر آمین کہتے ہیں۔ [سنن ابي داود:1443]
  5. قنوتِ نازلہ سری جہری تمام نمازوں میں کی جاسکتی ہے۔[ صحيح  البخاري:797، سنن ابي داود:1443]
  6. قنوتِ نازلہ ہنگامی حالات ختم ہونے پر موقوف کردیا جا تا ہے۔[ صحیح مسلم:677]
  • قنوت وتر :سے مراد وہ دعا ہے جو وتروں کی آخری رکعت میں پڑھی جاتی ہے، اس کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
  1. یہ دعا صرف وتروں میں پڑھی جاتی ہے۔ اور اس کو رکوع سے پہلے پڑھنا چاہیے، جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ادا کرتے، اور دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔[سنن نسائی: 1700] ابن مسعود اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے کہ وہ    وتر میں رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔ [مصنف  ابن ابی شیبۃ:6911]
  2. اگر وتر کی دعا کو ہنگامی حالات کے پیش نظر قنوت ِنازلہ کی شکل دے دی جائے ،تو اسے رکوع کے بعد پڑھنا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ وتروں میں مخالفین ِاسلام کے خلاف بد دعا رکوع کے بعد کرتے تھے۔[ صحیح ابن خزیمہ:1100]
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت کے ساتھ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں البتہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے آثار ملتے ہیں کہ وہ وتروں میں دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ [مختصر قیام اللیل، ص:320]

ہمارے خیال میں قنوت وتر میں دعا  ہاتھ اٹھا کر یا اٹھائے بغیر دونوں طرح کی جا سکتی ہے۔ کسی ایک طریقے پر تشدد اور دوام درست نہیں ہے۔ البتہ وتر میں تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھانا پھر انہیں باندھ لینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

  1. امام کا بآواز بلند قنوت وتر پڑھنا اور مقتدی حضرات کا آمین کہنا بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔البتہ قنوت نازلہ پر قیاس کیا جائے تو گنجائش نکل سکتی ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ قنوتِ وتر رکوع سے قبل پڑھنی چاہیے، لیکن اگر اس میں قنوت نازلہ والی دعائیں بھی پڑھنی ہوں، تو  وہ رکوع بعد  کی جائیں۔ البتہ قنوت وتر کو ہمیشہ ہی قنوت نازلہ بنادینا  مناسب نہیں ہے۔

هذا ما عندنا، والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ