سوال (3140)
قرآنِ کریم سے تنازعِ فعلین کی مثالیں درکار ہیں۔
جواب
قرآنِ کریم میں تنازع فعلین یا تنازع عاملین کی درج ذیل دو مثالیں مستحضر ہیں:
1۔ سورۃ الکہف میں ہے:
آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا [الكهف: 96]
اس میں آتونی اور أفرغ دونوں عامل ہیں جو کہ ’’قطرا’’ معمول میں تنازع کر رہے ہیں۔
تقدیرِ عبارت یوں فرض کی جا سکتی ہے:
آتوني قطرًا لأُفرغَه عليه.
اسی طرح سورۃ الحاقۃ میں ہے:
2۔ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ [الحاقة: 19]
اس میں ’هاؤم بمعنى خذ’ اور ’اقرؤوا’ دونوں ’کتابیہ’ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
تقدیرِ عبارت یوں ہو سکتی ہے: خذوا كتابيَه واقرؤوه.
پھر مکتبہ شاملہ وغیرہ سرچ ٹولز سے تلاش کرنے پر کچھ مزید مثالیں دستیاب ہوئیں:
3۔ «{يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ} تنازع العاملان على المجرور في الكلالة والتقدير: يستفتونك في الكلالة، قل الله يفتيكم فيها، فجاءت حجة البصريين في إعمال الثاني، ولو عمل الأول لقال: يستفتونك في الكلالة قل الله يفتيكم فيها.». [تفسير القرآن العظيم – علَم الدین السخاوي 1/ 212]
4۔ «وأنهم ظنوا كما ظننتم أن لن يبعث الله) العاملان هما ظنوا وظننتم، والمعمول المتنازع فيه هو (أن لن يبعث الله) و” كما ظننتم ” معمول لظنوا، لانه صفة لمصدر يقع مفعولا مطلقا ناصبه ظنوا.». [شرح ابن عقيل على ألفية ابن مالك 2/ 158]
5۔ {فنادته الملائكة وهو قائم يصلي في المحراب} [آل عمران: 39].
والتقدير: قائم في المحراب يصلي فيه.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ