سوال (3522)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بغض علی رضی اللہ عنہ
علامہ تقی الدین ابن تیمیہ الحنبلی م728ھ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

أن الله قد أخبر أنه سيجعل للذين آمنوا وعملوا الصالحات ودّاً، وهذا وعدٌ منه صادقٌ، ومعلوم أن الله قد جعل للصحابة مودة في قلب كل مسلم، لا سيما الخلفاء رضي الله عنهم، لا سيما أبو بكر وعمر فإن عامَّة الصحابة والتابعين كانوا يودونهما، وكانوا خير القرون. ولم يكن كذلك علي، فإن كثيراً من الصحابة والتابعين كانوا يبغضونه ويسبونه ويقاتلونه.

بے شک اللہ نے خبر دی ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے محبت پیدا کرے گا، اور یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ یہ معلوم ہے کہ اللہ نے صحابہ کے لیے ہر مسلمان کے دل میں محبت پیدا کی، خاص طور پر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے لیے، اور بالخصوص ابوبکرؓ اور عمرؓ کے لیے۔ کیونکہ عام صحابہ اور تابعین ان دونوں سے محبت کرتے تھے اور وہ بہترین زمانہ کے لوگ تھے۔
لیکن علیؓ کے بارے میں ایسا نہیں تھا، کیونکہ بہت سے صحابہ اور تابعین ان سے بغض رکھتے تھے، انہیں برا کہتے تھے اور ان سے جنگ کرتے تھے۔
[منهاج السنة 7/137]
بعض لوگوں نے علامہ ابن تیمیہ کا یہ کلام یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ بے دلیل کلام ہے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں حالانکہ اس کلام پر دلیل قائم ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الْخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:” يَا بُرَيْدَةُ، أَتُبْغِضُ عَلِيًّا؟” فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:” لَا تُبْغِضْهُ، فَإِنَّ لَهُ فِي الْخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ”

عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ بن حصیب) سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تم دیکھتے ہو علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا (بریدہ) کیا تمہیں علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بغض ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔
[صحیح بخاری رقم الحدیث 4350]
یہاں واضح دیکھا جاسکتا ہے، صحابی خود اقرار کر رہے ہیں کہ انہیں علی علیہ السلام سے بغض تھا اور یہ تو نبی کریم علیہ السلام کی زندگی کا واقعہ ہے حضور علیہ السلام کے بعد تو ویسے ہی جو کچھ ہوا وہ ہوا۔
یہی صحابی بعد میں فرماتے ہیں کہ:

فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ عَلِيٍّ

“رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے بعد لوگوں میں علیؓ سے زیادہ کوئی شخص مجھے محبوب نہ تھا۔”
[كتاب مسند أحمد- ط الرسالة 38/66 وسندہ حسن]
ان صحابی کا بغض تو اس قدر محبت میں بدل گیا کہ پھر رسول اللہ کے بعد سیدنا علی علیہ السلام سے زیادہ کسی سے محبت نہیں تھی شیخین کریمین سے بھی نہیں اس لیے روایت بھی ہو گیا باقی جن کی طرف علامہ ابن تیمیہ نے اشارہ کیا ہے بسر بن ابی ارطاۃ وغیرہ ان کا بغض تو بالکل واضح اور کھلا ہے اور ان سے کوئی توبہ اور رجوع ثابت نہیں!!
اور تابعین میں بغض علی علیہ السلام تو کوئی ڈکی چھپی بات نہیں مروان، زیاد، حجاج لعنۃ اللہ علیھم ان سے معروف ہے ۔
اللہ ہمیں حب علی علیہ السلام و صحابہ کرام پر موت عطا فرمائے آمین،
محمد عاقب حسین
شیخ اس کے بارے میں رہنمائی مطلوب ہے ، ایک حدیث پیش کی ہے اور ایک کلام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقل کیا ہے کہ صحابہ میں بغض علی موجود تھا نعوذ باللہ اور صحیح بخاری کی حدیث بھی پیش کی ہے اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب

یہ صاحب راہ اعتدال سے ہٹ کر بات کر گئے ہیں، صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے رب العالمین راضی ہو چکے ہیں اور وہ رب العالمین کی بخشش پا چکے ہیں ہمیں صرف ان کی مدح و مناقب و عظمت کو بیان کرنا چاہیے کیوں کہ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ان صحابہ کرام پر تبصرہ کریں جنہیں رضوان الہی مل چکی ہے ، جن کے دلوں پہ ایمان ثابت کر دیا گیا اور جن کے لیے ایمان کو پسندیدہ بنا دیا گیا اور جن کی مثل ایمان لانے کا حکم دیا گیا اور جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا [الفتح: 29]

غور کریں رب العالمین تو فرما رہے ہیں کہ:
محمد الله کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، آپ انھیں اس حال میں دیکھیں گے کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (ان کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، الله نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
اس ایک آیت پر غور کریں کہ صحابہ کرام کی کس کس عظیم خوبی کا رب کریم ذکر فرما رہے ہیں، بھلا ایمان و اخلاص کے پیکر صحابہ کرام ایمان و تقوی کے منافی فعل میں کیسے مبتلا ہو سکتے تھے؟ اور ہم ان کے بارے کیسے منفی رائے قائم کر سکتے ہیں جن پر خود رب العالمین نے کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔
جبکہ الله عالم الغیب تھے۔
سو جس طرح قرآن وحدیث میں صحابہ کرام کے فضائل و مناقب و عظمت اور عالی اوصاف کا کا ذکر ہوا ہے ہر مسلم کو بھی سن عظیم ہستیوں کے فضائل ومناقب وعظمت کو ہی بیان کرنا چاہیے اور ان کے بارے دلوں میں کوئی نفاق اور تنگی نہیں رکھنی چاہیے۔
صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر نقد و تبصرہ کا باب کھولنا درحقیقت ان کے ایمان و تقوی کو داغ دار کرنے کی ناپاک جسارت ہے، حقیقت میں اسلام کے انبار گواہوں پر حملہ کر کے اسلام سے لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش ہے۔
یاد رکھیں صحابہ کرام اور اہل بیت رضوان الله تعالی علیھم اجمعین آپ میں محبت و مودت رکھتے تھے جس کی نظیر قیامت تک نہیں ملے گی، یہ روافض و خوارج کی پیداوار ہیں جو ان میں تفریق کر کے امت مسلمہ کو آپ میں لڑانا چاہتے ہیں اور لڑا رہے ہیں، جب کوئی صحابہ کرام میں سے بعض پر اہل بیت کی آڑ میں زہر اگلنے لگے آپ فورا پڑھ دو رضى الله عنهم ورضوا عنه۔
آخری بات جن روایات کے بعض الفاظ کی بنیاد پر ائمہ محدثین و سلف صالحین نے کوئی منفی تشہیر و تبصرے نہیں کیے ہمیں بھی ان کی بصیرت و فقہ کے مطابق ایسا نہیں کرنا چاہیے ہے خیر القرون وبعد کے ائمہ محدثین وسلف صالحین کا اجماع واتفاق ہے کہ مشاجرات صحابہ کرام پر خاموشی اختیار کی جائے اور ان کے مناقب و فضائل بیان کیے جائیں اور ان کے لئے رحمت بخشش کی دعا کی جائے اور یہ مغفرت کی دعا عین قرآن کریم نے سکھائی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ