سوال (1657)

ایک شخص دو سودی کاروبار کرنے والوں کے درمیان کاتب نہیں ہے ، بلکہ صرف دیکھ بھال کرتا ہے یا حساب رکھتا ہے ۔ کیا وہ بھی برابر مجرم ہے؟

جواب

شرعی حکم ہے ۔

“وَتَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى‌ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ‌ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ” [سورة المائدة: 02]

«اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے»
یہ شخص کبیرہ گناہ میں معاون ہونے کی وجہ سے مجرم ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

دیکھیں حدیث میں کاتب کا ذکر ہے یعنی لکھت پڑھت کرنے والا ، تو آپ خود سوچیں کہ عام لکھنے والا آدمی زیادہ شریک کار ہے یا وہ آدمی جو حساب رکھتا ہے ، یقینا جو دیکھ بھال کرتا ہے ، بہرحال اس میں وہ شامل ہے ، اور وہ کاتب سے بڑا مجرم ہے ، عصر حاضر میں کوئی ایسی فیکٹری تقریبا نظر نہیں آتی ہے ، جس میں سودی معاملات نہ ہوں ، بہرحال بڑا ہی مشکل معاملہ ہو گیا ہے کہ کوئی آدمی سود کی ہوا سے پاک ہو ، جو بھی فیکٹری میں کام کرنے والا آدمی ہے ، اگرچہ وہ محنت مزدوری کر کے حلال روزی کماتا ہے ، لیکن اس فیکٹری میں وہ کام کر رہا ہے اسکی مشینری اور دیگر سرمایہ سودی لین دین سے ہے ، ایسی صورت میں اس آدمی کو بھی سود کی ہوا پہنچ رہی ہے ، آپ خود دیکھیے کہ معاشرہ کس سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ عام غریب آدمی کو کیا کہا جائے کہ وہ فیکٹری چھوڑ دے ۔۔۔!
اللہ ہی ہے اس کی طرف التجاء کی جاتی ہے ،
اقامت شریعت الہی کے بغیر یہ معاشرہ کبھی بھی سود اور دیگر چیزوں کی نجاست سے پاک نہیں ہو سکتا ،اس کے لیے جو کوشش بھی ہو سکتی ہے علمی اور عملی طور پر وہ کرنی چاہیے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ