سوال (1416)
ہماری مسجد کے ایک فوجی ریٹائر نمازی ہیں ، وہ سپیکر پر نماز پڑھنے کو “ان انکر الاصوات لصوت الحمیر” سے تعبیر کرتے ہیں اس آیت کی وضاحت فرمائیں۔
جواب
(1) : پہلی بات بہت ہی ادب واحترام سے ان کی خدمت عالیہ میں عرض کریں کہ انکر الاصوات سے تعبیر کرنے کے لئے وجہ استدلال کیا ہے ؟ یا محض ان کا خیال ہے ؟
(2) : دوسری بات ان کی علمی قابلیت کیا ہے جو ان کو رائے زنی کا اختیار مل گیا ہے؟
(3) : تیسری بات یہ ہے محض فتویٰ جھاڑ دینا کافی نہیں ہوتا ہے ، اس کے مطابق دلیل بھی پیش کی جاتی ہے ۔
(4) : چوتھی بات ان کو کہیں ابھی علماء کرام اور مشائخ عظام موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے آپ اگر سکوت اختیار کر لیں گے تو بہتر رہے گا اور علماء ومشائخ کی طرف رجوع کریں !
(5) : پانچویں اور آخری بات سپیکر پر نماز پڑھانے کے عمل کو کسی متقدمین و متاخرین ائمہ و علماء نے اس آیت کے تناظر میں تعبیر نہیں کیا ہے ۔
آیت کا تفسیری پہلو ملاحظہ فرمائیں
قول باری ہے:
“واغضض من صوتک ان انکر الاصوات لصوت الحمیر” [سورۃ لقمان : 19]
” اور اپنی آواز پست رکھو بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے”۔
آیت میں آواز پست رکھنے کا حکم ہے اس لیے کہ یہ بات تواضع اور انکساری سے زیادہ قریب ہے جیسا کہ قول باری ہے “ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ۔ وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے سامنے اپنی آواز نیچی رکھتے ہیں”۔
لوگوں پر رعب ڈانے اورا نہیں پست سمجھنے کی بنا پر آواز بلند کرنا قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی قباحت واضح کردی ۔ نیز یہ بتادیا کہ یہ کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے کیونکہ گدھے بھی اپنی آواز اونچی رکھتے ہیں حالانکہ ان کی یہ آواز سب سے بری آواز ہے۔
مجاہد نے (انکرالاصوات) کی تفسیر اقبح الاصوات (قبیح ترین آواز) سے کی ہے جس طرح کہا جاتا ہے۔
“ھذا وجه منکر
(یہ توجیہ ناپسندیدہ ہے) یعنی قباحت کی بنا پر ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرما کر بندوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کرنے سے پرہیز کیا کریں۔
بعض دفعہ ضرورت کی وجہ سے انسان کو بلند آواز سے پکارنا پڑتا ہے۔ مثلاً دو چار آدمی آس پاس بیٹھے ہوں تو پست آواز سے کام چل جاتا ہے۔ مگر زیادہ آدمیوں کو بات سنانا مقصود ہو یا کوئی شخص خطاب کر رہا ہو اذان دیتے وقت انسان کو بلند آواز نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پست آواز سے کام ہی نہیں چلتا۔ ایسے مواقع پر بلند آواز سے بات کرنا یا خطاب کرنا ہرگز مذموم نہیں ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ استاد کو اپنے شاگرد کو سرزنش کرنے یا ڈانٹنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت بھی اگر وہ آواز پست اور نرم لہجہ رکھے گا تو شاگرد پر خاک بھی اثر نہ ہوگا۔ مذموم چیز یہ ہے کہ کوئی شخص از راہ تکبر دوسروں پر دھونس جمانے اور انھیں ذلیل یا مرعوب کرنے کے لیے یہ تکلیف گلا پھاڑے یا چلا کر بات کرے۔ اس غرض سے جب کوئی چلا چلا کر بولتا ہے تو بسا اوقات آواز بے ڈھنگی اور بے سری ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ اگر یہ بھی کوئی خوبی کی بات ہوتی تو یہ کام تو گدھے تم سے اچھا کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ان کی آواز سے سب نفرت کرتے ہیں۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ