سوال (3341)
سنن الترمذی کی روایت نمبر : 257 ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی ترک رفع الیدین پر جو احناف پیش کرتے ہیں، اس میں سفیان ثوری عاصم بن کلیب سے روایت کر رہے ہیں، عاصم بن کلیب کے بارے معلومات چاہیے یا جس کتاب میں ہیں اس کی طرف رہنمائی فرما دیں اور کیا ان دونوں کا سماع یا ملاقات ثابت ہے؟
جواب
یہ روایت خطا پر مبنی ہے اور ثقات حفاظ کی اثبات رفع الیدین پر بیان کردہ احادیث کے خلاف ہے۔ ائمہ نقاد و علل نے اس روایت پر کلام کیا اور اسے معلول قرار دیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
ﻭ ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻋﻨﺪﻱ ﻭ ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ: ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺧﻄﺄ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻭﺷﻴﺨﻪ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ: ﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ ﻧﻘﻠﻪ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻭﺗﺎﺑﻌﻬﻤﺎ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ
ﻭ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻟﻴﺲ ﻫﻮ ﺑﺼﺤﻴﺢ
ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ: ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻭ ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻫﺬا ﺃﺣﺴﻦ ﺧﺒﺮ ﺭﻭﻱ ﻷﻫﻞ اﻟﻜﻮﻓﺔ ﻓﻲ ﻧﻔﻲ ﺭﻓﻊ اﻟﻴﺪﻳﻦ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻋﻨﺪ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭﻋﻨﺪ اﻟﺮﻓﻊ ﻣﻨﻪ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﺤﻘﻴﻘﺔ ﺃﺿﻌﻒ ﺷﻲء ﻳﻌﻮﻝ ﻋﻠﻴﻪ ﻷﻥ ﻟﻪ ﻋﻠﻼ ﺗﺒﻄﻠﻪ ﻭﻫﺆﻻء اﻷﺋﻤﺔ ﺇﻧﻤﺎ ﻃﻌﻨﻮا ﻛﻠﻬﻢ ﻓﻲ ﻃﺮﻳﻖ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ [التلخیص الحبیر: 1/ 546]
اسی روایت کے بارے میں امام العلل أبوداود نے کہا: ﻭ ﻟﻴﺲ ﻫﻮ ﺑﺼﺤﻴﺢ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا اﻟﻠﻔﻆ
[سنن ابو داود: 748]
ﻭ ﻗﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ: ﻗﺪ ﺛﺒﺖ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻦ ﻳﺮﻓﻊ، ﻭﺫﻛﺮ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻭﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﺮﻓﻊ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ ﻣﺮﺓ [سنن ترمذی: تحت: 256]
ناقد کبیر امام أحمد بن حنبل نے کہا:
ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ ﺭﻭاﻩ ﺑﻦ ﺇﺩﺭﻳﺲ ﻓﻠﻢ ﻳﻘﻞ ﺛﻢ ﻻ ﻳﻌﻮﺩ
[العلل ومعرفة الرجال برواية عبدالله بن أحمد : 713]
امام بخاری نے کہا:
ﻭ ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ: ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﻗﺎﻝ: ﻧﻈﺮﺕ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺇﺩﺭﻳﺲ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻪ: ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ. ﻓﻬﺬا ﺃﺻﺢ ﻷﻥ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﺃﺣﻔﻆ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ العلم ﻷﻥ اﻟﺮﺟﻞ ﺭﺑﻤﺎ ﺣﺪﺙ ﺑﺸﻲء ﺛﻢ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﻓﻴﻜﻮﻥ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﻜﺘﺎﺏ [جزء رفع الیدین: 31]
پھر امام بخاری نے ابن ادریس عن کلیب کے طریق سے حدیث ابن مسعود کو نقل کیا جس میں ثم لم یعد یا لا یعود کا ذکر نہیں ہے اور اس کے بعد متصل بعد کہا:
ﻭ ﻫﺬا المحفوظ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﻨﻈﺮ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ [جزء رفع اليدين : 32]
امام العلل ابن أبی حاتم الرازی نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے منسوب اس روایت کے بارے کہا:
ﻫﺬا ﺧﻄﺄ؛ ﻳﻘﺎﻝ: ﻭﻫﻢ ﻓﻴﻪ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻭﺭﻭﻯ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺟﻤﺎﻋﺔ، ﻓﻘﺎﻟﻮا ﻛﻠﻬﻢ: ﺇﻥ اﻟﻨﺒﻲ صلی الله علیہ وسلم اﻓﺘﺘﺢ، ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ، ﺛﻢ ﺭﻛﻊ، ﻓﻄﺒﻖ، ﻭﺟﻌﻠﻬﺎ ﺑﻴﻦ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ. ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻞ ﺃﺣﺪ ﻣﺎ ﺭﻭاﻩ اﻟﺜﻮﺭﻱ [علل الحدیث لابن أبی حاتم الرازی : 258]
یعنی ثم لا یعود یہ سفیان ثوری کی خطا ہے۔
موسوعة حديثية کی تعلیق میں لکھا ہے:
ﻭﺣﻜﻰ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺗﻀﻌﻴﻔﻪ ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﻭﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻭﺗﺎﺑﻌﻬﻤﺎ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﺿﻌﻔﻪ اﻟﺪاﺭﻣﻲ ﻭاﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻭاﻟﺒﻴﻬﻘﻲ، ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺭﻭﻱ ﺑﺄﺭﺑﻌﺔ ﺃﻟﻔﺎﻁ: ﺃﺣﺪﻫﺎ ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ ﻣﺮﺓ ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ.
ﻭاﻟﺜﺎﻧﻴﺔ: ﻓﻠﻢ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﻻ ﻣﺮﺓ. ﻭاﻟﺜﺎﻟﺜﺔ: ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ ﻣﺮﺓ. ﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﺳﻮاﻫﺎ.
ﻭاﻟﺮاﺑﻌﺔ: ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻣﺮﺓ ﻭاﺣﺪﺓ. ﻭاﻹﺩﺭاﺝ ﻣﻤﻜﻦ ﻓﻲ ﻗﻮﻟﻪ: “ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ”. ﻭﺃﻣﺎ ﺑﺎﻗﻴﻬﺎ ﻓﺈﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻗﺪ ﺭﻭﻱ ﺑﺎﻟﻤﻌﻨﻰ، ﻭﺇﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺻﺤﻴﺤﺎ.
ﻗﻠﻨﺎ: ﻗﺪ ﻭﺭﺩ ﻓﻲ “ﻋﻠﻞ” اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ 5/171 ﺑﻠﻔﻆ: ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ ﺗﻜﺒﻴﺮﺓ، ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ، ﻗﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ: ﻭﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭﻓﻴﻪ ﻟﻔﻈﺔ ﻟﻴﺴﺖ ﺑﻤﺤﻔﻮﻇﺔ ﺫﻛﺮﻫﺎ ﺃﺑﻮ ﺣﺬﻳﻔﺔ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻭﻫﻲ ﻗﻮﻟﻪ: ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ. ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻗﺎﻝ اﻟﺤﻤﺎﻧﻲ ﻋﻦ ﻭﻛﻴﻊ. ﻭﺃﻣﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻭﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ، ﻭاﺑﻦ ﻧﻤﻴﺮ، ﻓﺮﻭﻭﻩ ﻋﻦ ﻭﻛﻴﻊ، ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻮﻟﻮا ﻓﻴﻪ: ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ … ﻭﻟﻴﺲ ﻗﻮﻝ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ: ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﻌﺪ، ﻣﺤﻔﻮﻇﺎ [موسوعة حديثية/ مسند أحمد بن حنبل : 6/ 205]
امام ابن عبدالبر نے حدیث براء، وابن مسعود کو ذکر کرنے کے بعد کہا:
ﻭ ﻫﺬاﻥ ﺣﺪﻳﺜﺎﻥ ﻣﻌﻠﻮﻻﻥ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﺑﺎﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎﻥ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﺼﺤﺔ ﻋﻨﺪﻫﻢ ﻭﺳﻨﺬﻛﺮ اﻟﻌﻠﺔ ﻓﻴﻬﻤﺎ ﻋﻨﻬﻢ ﻓﻴﻤﺎ ﺑﻌﺪ ﻣﻦ ﻫﺬا اﻟﺒﺎﺏ ﺇﻥ ﺷﺎء اﻟﻠﻪ [التمهيد لابن عبد البر : 9/ 215]
ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
ﻭ ﺃﻣﺎ ﻗﻮﻝ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺛﻢ ﻻ ﻳﻌﻮﺩ ﻓﺨﻄﺄ ﻋﻨﺪ ﺃﻫﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻛﻠﻴﺐ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﺎﻥ ﺑﻦ اﻷﺳﻮﺩ ﻋﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻗﺎﻝ ﺃﻻ ﺃﺻﻠﻲ ﺑﻜﻢ ﺻﻼﺓ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺼﻠﻰ ﻓﻠﻢ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﻻ ﻣﺮﺓ ﻭاﺣﺪﺓ ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺨﺘﺼﺮ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻃﻮﻳﻞ ﻭﻟﻴﺲ ﺑﺼﺤﻴﺢ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا اﻟﻤﻌﻨﻰ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ اﻟﺒﺰاﺭ ﻭﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﻻ ﻳﺜﺒﺖ ﻭﻻ يحتج به ﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺳﻤﻌﺖ اﻟﺒﺰاﺭ ﻳﻘﻮﻟﻪ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻭﺿﺎﺡ ﻳﻘﻮﻝ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺘﻲ ﺗﺮﻭﻯ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺭﻓﻊ اﻟﻴﺪﻳﻦ ﺛﻢ ﻻ ﻳﻌﻮﺩ ﺿﻌﻴﻔﺔ ﻛﻠﻬﺎ [التمهيد لابن عبد البر: 9/ 221،222]
اس روایت میں عاصم بن کلیب کی طرف سے وھم وخطاء نہیں ہے اور عاصم بن کلیب کو ائمہ محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔
امام یحیی بن معین نے کہا:
ﺛﻘﺔ ﻣﺄﻣﻮﻥ
[من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال: 63]
امام أحمد بن حنبل نے کہا:
ثقة
[العلل ومعرفة الرجال برواية المروذي وغيره : 21]
امام ابن سعد نے کہا:
ﻭ ﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﻪ ﻭﻟﻴﺲ ﺑﻜﺜﻴﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[طبقات ابن سعد : 6/ 341]
امام عجلی نے کہا:
ثقة
[الثقات للعجلي : 743]
امام أحمد بن صالح نے کہا:
ﻣﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ
[تاريخ أسماء الثقات : 833]
امام ابن حبان نے کہا:
ﻣﻦ ﻣﺘﻘﻨﻰ اﻟﻜﻮﻓﻴﻴﻦ
[مشاهير علماء الأمصار: 1305]
ائمہ کبار سے اہم تصریحات پیش کر دی ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ عاصم بن کلیب ثقہ راوی ہیں اور یہ روایت ابن مسعود ائمہ علل ونقاد کے نزدیک ضعیف وخطاء پر مبنی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ