سوال (3138)

کسی سیّد کا ایک ایسے ادارے میں کام کرنے کا کیا شرعی حکم ہے، جہاں کا نظام زکوة وصدقات سے چلتا ہے، اور اسی پیسے سے تنخواہ دی جاتی ہے؟

جواب

وہ شخص بطور ملازم خدمات سر انجام دے رہا ہے، اور اپنے کام کے عوض تنخواہ وصول کرتا ہے، لہذا اس کے لیے یہ صدقہ و زکاۃ تصور نہیں ہو گا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کے صدقہ کو بطور تحفہ قبول کیا تھا اور فرمایا:

“هو لَهَا صَدَقَةٌ ولَنَا هَدِيَّةٌ”. [صحيح البخاري:5284]

یہ اس کے لیے صدقہ ہے، لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے.
گویا یہ اس خیراتی ادارے کے لیے صدقہ و زکاۃ ہے، لیکن ملازمین وہاں سے سہولیات مستحقین زکاۃ ہونے کی بنیاد پر نہیں لے رہے، بلکہ اپنی خدمات کا معاوضہ یا مشاہرہ لے رہے ہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے اگر ادارے میں یہ واضح کر دیا جائے کہ ہم یہاں صرف اسی شخص کو ملازم رکھتے اور وظیفہ دیتے ہیں جو زکاۃ کا مستحق ہو، تو پھر ایسی صورت میں ان لوگوں کے لیے اس ادارے کے ساتھ منسلک ہونا درست نہیں جو مستحقینِ زکاۃ و صدقات نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

زکاۃ اپنے محل یا مقام پر پہنچ جائے تو اس کے بعد جس کو پہنچی ہے یا جس جگہ پہنچی ہے، وہاں کوئی ذمے دار ہو، وہ اس کو استعمال کرتا ہے تو پھر احکامات بدل جاتے ہیں، اس کی واضح دلیل سیدہ بریرہ رضی اللہ عنھا والی حدیث ہے، بریرہ کو صدقہ ملتا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ہدیہ کا درجہ دیتے تھے، اب کسی ادارے کو زکاۃ مل جاتی ہے، اب بیت المال ہو یا نہ ہو، لیکن ادارے اس طرح کا تصرف رکھتے ہیں، اس کے بعد کوئی بھی بطور تنخواہ اپنی خدمات کے صلے میں لے سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ