وہ حَبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
خبر نہیں کہ موسم کن منحوس رُتوں میں ڈھل گئے ہیں کہ اب یہاں بادِ بہاری اور بادِ نسیمِ کے نشاط انگیز اور راحتِ جاں جھونکے بہت کم کم آنے لگے ہیں۔جب بھی کوئی سڑا بُسا جھونکا آتا ہے، وہ بادِ سموم ہی کا ہوتا ہے، وقفے وقفے سے ایسے تھپیڑے ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی اطوار پر لگتے ہیں کہ جو فقط ہمارے تن من ہی کو گھایل نہیں کرتے بلکہ روحوں کو بھی جھلسا ڈالتے ہیں۔لاڑکانہ کی مسجد میں پیش آنے والا روح فرسا واقعہ اسلامی تہذیب و تمدن کا ذرا سا بھی مظہر اور عکاس نہیں ہو سکتا، ایسے واقعات جسم و جاں کو لرزا کر رکھ دیتے ہیں۔ویڈیو میں مولوی ایک معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے اور محراب کے اندر بیٹھ کر وہ ایک ننھے پھول کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنا رہا ہے۔ساحر لدھیانوی نے اس کا نقشا یوں کھینچا ہے:-
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
پاکستان کے شہر فیصل آباد کی تحصیل تاندلیاں والا میں بھی گذشتہ مہینے ایسا ہی دل سوز ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ایک باپ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے کم سن بیٹے کے ساتھ ایک مقامی مدرسے کے معلم نے بدفعلی کرنے کی کوشش کی ہے اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر ملزم اسلحے کے زور پر علاقہ مکینوں کو دھمکاتے ہوا موقعے سے فرار ہو گیا۔مقامی پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا، تاہم گرفتاری کے چھے دن بعد ملزم کو رہا کر دیا گیا۔رہائی کے بعد ملزم نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں اسے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ” اللہ شر سے خیر نکالے گا اور دعا ہے کہ اللہ دین کا کام کرنے کی توفیق دے۔“
کوٹ ادو کے علاقے سناواں میں بھی ایک مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام سامنے آیا۔کیس کے تفتیشی آفیسر نے وائس آف امریکا کو بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق 13 سالہ بچہ مقامی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہوا تھا کہ اعتکاف میں بیٹھے ایک 28 سالہ نوجوان نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔
آئیے ! ایک اور دل خراش منظر آپ کو دِکھاؤں، یہ گوجراں والا کا ایک قصبہ ہے۔یہاں کے رہایشی ایک محنت کش کا نام غلام رسول ہے۔اس کے آٹھ بچے ہیں، جن میں سے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر 13 سال ہے۔غلام رسول بتاتا ہے کہ ایک سال پہلے اس نے دینی مدرسے میں اپنے چھوٹے بیٹے کو قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے داخل کرایا تھا۔اس روز سب گھر والے بہت خوش تھے کہ گھر کا کوئی فرد تو ایسا ہے جس پر سارا خاندان فخر کر سکے گا۔اس کا بیٹاجب ایک ماہ بعد پہلی بار گھر آیا تو وہ بجھا بجھا سا تھا۔وہ یہی سمجھا کہ گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے اداس ہے۔آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔لیکن رات کو جب اس نے اپنے بڑے بھائی کو اپنے ساتھ مدرسے میں ہونے والی جنسی زیادتی کی بات بتائی تو اس پاؤں تلے زمین نکل گئی۔غلام رسول نے الزام لگایا کہ اس کے بیٹے کو مدرسے میں تین بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ایک بار اس کے ایک سینیَر لڑکے نے اور دو بار مدرسے کے معلم نے زیادتی کی اور یہ دھمکی بھی دی کی اگر کسی کو بتایا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
اسی رمضان کے مقدس مہینے میں خیبر پختونخوا میں ایک تیرہ سال کا بچہ پہلی بار مسجد میں نماز پڑھنے گیا۔بارہ سالوں تک اس کی والدہ اسے گھر میں نماز پڑھاتی رہی، اس لیے کہ بچے کو مسجد میں ساتھ لے جانے والا کوئی بڑا آدمی گھر میں نہیں تھا۔بچہ جب تیرہ سال کا ہوا تو والدہ نے کہا کہ اب تجھ پر مسجد میں نماز پڑھنا فرض ہو گیا ہے۔سو، وہ بچہ پہلی بار مسجد میں نماز پڑھنے گیا۔اگلے دن اس کی لاش رسّی کے ساتھ لٹکی ہوئی ملی۔اسے بھی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ابھی چند ہفتے قبل دینہ ضلع جہلم میں ایک بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
اس نوع کے نوے فی صد سے زائد واقعات ” زمینی حالات اور واقعات “ کا بوجھ نہیں سہار پاتے سو وہ دبا لیے جاتے ہیں، بہت کم واقعات کی رپورٹ درج کروائی جاتی ہے۔یہ جنسی جرائم پر مبنی واقعات نئے ہر گز نہیں ہیں بلکہ ایک تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان واقعات کے تسلسل کی اصل وجہ یہی ہے کہ مجرموں سزا نہیں مل پاتی۔ندا فاضلی کے بہ قول:-
بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں
مرض پرانا ہے، اس کا نیا علاج بھی ہو
آج مولوی اتنا بے باک ہو چکا ہے بلکہ اس کے دل سے خوف خدا اس حد تک محو ہو چکا ہے کہ وہ منبر و محراب کا تقدس لیرو لیر کرنے میں کچھ جھجھک تک محسوس نہیں کرتا۔
جب کسی یونی ورسٹی میں بد کاری کا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تب مولوی شور مچاتے ہیں کہ ” دیکھو ! ایسی بد کاری کا واقعہ کسی مدرسے میں ہوتا ہے تو مولوی کو سارا معاشرہ مطعون کرتا ہے مگر یونی ورسٹی میں ایسے کسی واقعے پر اتنا شور شرابا نہیں ہوتا “ ننگِ آدم ، ننگِ دین ، ننگِ وطن بننے والے ایسے ملاؤں سے کوئی پوچھے کہ تم منبر و محراب تک کی حرمت کی دھجیاں بکھیر دیتے ہو، تم سب سے بڑے مجرم ہو کہ تم نے اپنا وحشی پن، مذہبی لبادے میں چُھپا رکھا ہے۔قلم و قرطاس سے وابستہ لوگ سکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز میں ہونے والے ایسے اندوہ ناک واقعات کی بھی ہمیشہ مذمت کرتے ہیں۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نام نہاد مولوی کے ایسے غلیظ کاموں سے محض اس لیے صرفِ نظر برت لیا جائے کہ اس نے مذہب کا لبادہ زیب تن کر رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب ہر سُو حِبس اتنی بڑھ چکی ہے کہ سانس تک لینا محال ہے۔اتنے گھٹن زدہ ماحول میں لوگ یہ دعائیں مانگنے پر مجبور ہیں کہ اے اللہ! ہوائیں ہی چل پڑیں چاہے وہ گرم اور تپتی ہوائیں ہی کیوں نہ ہوں۔جوش ملیح آبادی نے کہا ہے:-
اب بوئے گُل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حَبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )