سوال (3512)

ہمارے ہاں زمین کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے۔
اس کی دو صورتیں ہیں۔
(1) رقم کی صورت میں ادائیگی کی جاتی ہے۔
(2) اناج کی صورت میں ادائیگی کی جاتی ہے۔
اس کے متعلق راہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ دونوں صورتیں شرعاً درست ہیں؟

جواب

جی ہاں! دونوں صورتیں جائز ہیں، پہلی صورت یہ ہے کہ آپ نے پیسے لے لیے ہیں، زمین کاشتکار کے حوالے کردی ہے، گویا آپ نے کرائے پر دے دی ہے، دوسری ہے کہ پیداوار کے حساب سے دینی ہے، ٹوٹل پیداوار میں سے آدھا یا پاؤ یعنی جس پر بھی طے ہو جائے، یہ بھی جائز ہے، جو ناجائز صورتیں ہیں، ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ آپ چار ایکڑ میں سے ایک ایکڑ پر نشان لگادیں کہ یہ آپ کا ہے، باقی میری پیداوار ہے، اس میں غرر آجاتا ہے، ممکن ہے کہ وہاں پیداوار نہ ہو، ممکن ہے کہ آپ کے ہاں نہ ہو، بس ٹوٹل پیداوار میں سے جس پر بھی طے ہو جائے ان شاءاللہ صحیح ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

زمین کا اچھا اور زیادہ پیدوار والا حصہ خاص کیے بغیر ان ہر دو صورتوں میں سے جو بھی صورت باہمی رضا مندی سے طے ہو جائے درست ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: آج ایک صاحب (شاید مولانا احمد سعید ملتانی کے برخوردار) کا ویڈیو کلپ سامنے آیا ہے، جس میں وہ بیان کر رہے تھے کہ جس تجارت میں صرف نفع ہو وہ سود کے زمرے میں آتا ہے.
اور ان صاحب نے زمین کو ٹھیکے پر دینا سود قرار دیا ہے؟
جواب: مولانا اس طریقے کار کو سود کہنا یہ صحیح نہیں، ٹھیکے کی وضاحت ہو چکی ہے کہ کونسی قسم جائز ہے اور کونسی ناجائز ہے، ڈاکٹر اسرار صاحب نے بھی مطلقا اس کو حرام کہا تھا، یہ بھی طریقہ صحیح نہیں ہے، جائز، جائز ہے، اور ناجائز ناجائز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: ٹھیکے کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ باغ وغیرہ کئی کئی سالوں کے لیے لوگ ٹھیکے پہ دے دیتے ہیں، مثلاً آم کا باغ ہوتا ہے یا امرودوں کا ہوتا ہے یا سیب وغیرہ کا تو پانچ سال کے لیے دس سال کے لیے ٹھیکے پر دے دیتے ہیں، تو کیا یہ صورت بھی جائز ہے؟
جواب: دیکھیں ٹھیکے کی وجہ سے اشکال پیدا ہو رہا ہے، اگر ہم اس کو کرایہ سمجھ لیں تو پھر ان شاءاللہ مسئلہ آسان ہو جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ہم نے جو جواب دیا اس پر غور کریں، ٹھیکے کی وہ قسم منع اور ناجائز ہے، جس میں مالک زمین کا زیادہ فصل اور پیدوار اچھی دینے والا حصہ اپنے لیے خاص کر لے، اگر یہ صورت نہیں ہو تو بلا شبہ جائز ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: اصل میں شیخ محترم کل ہمارے ایک شیخ بتا رہے تھے کہ یہ جو باغوں کا ٹھیکہ ہوتا ہے کہ 10 سال کے لیے پانچ سال کے لیے جو باغ وغیرہ ٹھیکے پہ دے دیتے ہیں تو یہ بیع المعدوم ہوتی ہے اور یہ ایسی چیز کی بیع ہو رہی ہے، جو چیز ابھی تک جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، مثلا ممکن ہے کہ اگلے سال پھل ہو ہی نہ اور آپ پہلے ہی پانچ سال کے لیے اسے ٹھیکے پہ دے رہے ہیں، تو وہ کہہ رہے تھے یہ جائز نہیں, تو اس وجہ سے میں نے پوچھا کہ یہ جائز ہے؟ شیخ میں نے زمین کے بارے میں نہیں پوچھا ہے، بلکہ وہ جو پھلوں کے درخت ہیں، اس کے بارے میں پوچھا ہے کہ ان کا کئی کئی سال کے لیے ٹھیکہ ہو سکتا ہے؟
جواب: جو زمین ٹھیکے پہ دی جاتی ہے، وہ پیداوار خود کرتا ہے، ہل خود چلاتا ہے، بیچ خود بوتا ہے، خود فصل کاٹتا اور بیچتا ہے، اب آپ ایک سال کے لیے دیں یا دو سال کے لیے دیں، آپ جگہ کے پیسے وصول کرتے ہیں، چیز کے نہیں، وہ اس کے صوابدید پر ہوتا ہے، باقی اگر کوئی صورت ہے کہ پھلوں کی بیع ہو رہی ہے، تو پھر اس کی تفصیل درکار ہے، باقی بیع السنین کے مباحث دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ آپ کا سوال اگر بیع السنین کے بارے میں ہے تو یہ حدیث میں منع ہے، سنن ابی داؤد اور صحیح مسلم میں اس کے مباحث دیکھ سکتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ