سوال (2965)

کیا یہ حدیث صحیح ہے، جس میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللّٰہ عنہ اس کا دروازہ ہے؟

جواب

یہ روایت اپنی جمیع اسانید و طرق کے ساتھ، سخت ضعیف ومنکر شیعی اور بے اصل ہے، جس نے بھی اس کو بالجملہ حسن لغیرہ قرار دیا وہ صریح خطا پر ہے، اس کے بارے امام الجرح والتعدیل والعلل امام یحیی بن معین نے کہا: ﻭ ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻛﺬﺏ، ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺃﺻﻞ
[سؤالات ابن الجنید : 51 ، الضعفاء الکبیر للعقیلی: 3/ 149، 1134 ، المنتخب من علل الخلال: 121]
امام أحمد کے نزدیک یہ روایت منکر بے ، اصل ہے۔
العلل ومعرفة الرجال برواية المروذي وغيره : 303 منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث1/ 228،229،230،231،232،233،234،235
مزید دیکھیے الضعفاء لأبی زرعہ الرازی : 2/ 520 ،521
امام ترمذی نے کہا:

ﺳﺄﻟﺖ ﻣﺤﻤﺪا أی البخاری ﻋﻨﻪ ﻓﻠﻢ ﻳﻌﺮﻓﻪ ﻭﺃﻧﻜﺮ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ.

یعنی امام بخاری کے نزدیک اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﻴﺴﻰ: ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻋﻦ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺷﺮﻳﻚ , ﻭﻻ ﻧﻌﺮﻑ ﻫﺬا ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻛﻬﻴﻞ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺣﺪﻳﺚ ﺷﺮﻳﻚ
[العلل الکبیر للترمذی : 699]

مزید دیکھیے سنن ترمذی
امام دارقطنی نے کہا:

ﻭ ﻟﻢ ﻳﺴﻨﺪﻩ. ﻭ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻀﻄﺮﺏ ﻏﻴﺮ ﺛﺎﺑﺖ
[العلل للدارقطنی : 3/ 247]

مزید دیکھیے تذکرة الحفاظ لابن القيسراني : 320 ذخيرة الحفاظ : 754 ، 5992 ، المضوعات لابن الجوزی : 1/ 349 تا355 ، تلخيص كتاب الموضوعات: 256
حافظ ذہبی نے کہا: والحديث موضوع
[تاریخ الاسلام : 18/368] مزید دیکھیے تلخیص المستدرک
امام ابن حبان نے کہا:

ﻭ ﻫﺬا ﺧﺒﺮ ﻻ ﺃﺻﻞ ﻟﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ……..المجروحین : 2/94
مزید دیکھیے المجروحین : 1/ 130 (52)،1/ 153(85)،2/ 102(671)،2/151(765) الکامل لابن عدی : 3/ 201 و 4/ 473 ، و 6/ 131، و 6/ 302 ، تعلیقات الدارقطنی علی المجروحین :ص178 ،179،

حافظ سخاوی نے کہا:

ﻗﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻞ ﻋﻘﺐ ﺛﺎﻧﻴﻬﻤﺎ: ﺇﻧﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻀﻄﺮﺏ ﻏﻴﺮ ﺛﺎﺑﺖ، ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺘﺮﻣﺬﻱ: ﺇﻧﻪ ﻣﻨﻜﺮ، ﻭﻛﺬا ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻪ البخاري، ﻭﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﻭﺟﻪ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻓﻴﻤﺎ ﺣﻜﺎﻩ اﻟﺨﻄﻴﺐ ﻓﻲ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺑﻐﺪاﺩ: ﺇﻧﻪ ﻛﺬﺏ ﻻ ﺃﺻﻞ ﻟﻪ۔

اور پھر آخر میں یوں کہتے ہیں:

ﻭ ﺑﺎﻟﺠﻤﻠﺔ ﻓﻜﻠﻬﺎ ﺿﻌﻴﻔﺔ، ﻭﺃﻟﻔﺎﻅ ﺃﻛﺜﺮﻫﺎ ﺭﻛﻴﻜﺔ
المقاصد الحسنة : ص: 170

محدث البانی رحمه الله نے کہا:

ﻓﺈﻥ ﻫﺬا ﻟﻴﺲ ﻓﻲ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺤﺔ ﻣﺎ ﻳﺸﻬﺪ ﻟﻤﻌﻨﺎﻩ، ﺑﻞ ﻫﻮ ﻣﻦ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺸﻴﻌﺔ اﻟﻤﺮﻓﻮﺿﺔ؛ ﻛﻤﺎ ﺣﻘﻘﻪ ﺷﻴﺦ اﻹﺳﻼﻡ اﺑﻦ ﺗﻴﻤﻴﺔ ﻓﻲ “اﻟﻤﻨﻬﺎﺝ
الصحيحة 1/ 22

اور موضوع کہا
تفصیل دیکھئے الضعيفة : 2955
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ