سوال (679)

کیا ان الفاظ کے ساتھ استغفار کسی حدیث میں آتا ہے “استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ” اگر نہیں تو کیا ان الفاظ سے استغفار کرنا صحیح ہے؟

جواب

یہ دعاء ان سب الفاظ سے مکمل ایک جگہ تو نہ مل سکی ، تاہم اس دعاء کے الفاظ مختلف احادیث میں منقول ہیں ۔
البتہ : امام نسائیؒ السنن الکبریٰ [حدیث نمبر 10215]میں حدیث روایت کرتے ہیں :

أخبرنا محمد بن المثنى، حدثنا الوليد، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن إسماعيل بن عبيد الله، عن خالد بن عبد الله بن الحسين قال: سمعت أبا هريرة، يقول: ” مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے زیادہ یہ دعاء کرتے کسی کو نہیں دیکھا : میں اللہ سے مغفرت کا مانگتا ہوں ، اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ”
السنن الکبریٰ [حدیث نمبر 10215، مسند ابو یعلی 247 ، صحیح ابن حبان 928 ، عمل اليوم والليلة لابن السنی 363 ، مشہور محقق سليم بن عيد الهلالي عجالۃ الراغب : 1/418 میں لکھتے ہیں : اسنادہ حسن]

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

سوال میں ذکر کردہ استغفار کے الفاظ بعینہ مکمل تو حدیث کی کسی کتاب میں نہیں مل سکے، البتہ مختلف احادیث میں یہ مضمون وارد ہے، جس سے اس کی تائید ہوتی ہے:

حدثني محمد بن المثنى، حدثني عبد الأعلى، حدثنا داود، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر من قول: «سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه» قالت: فقلت يا رسول الله، أراك تكثر من قول: «سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه؟» فقال: ” خبرني ربي أني سأرى علامة في أمتي، فإذا رأيتها أكثرت من قول: سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه، فقد رأيتها ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ﴾ [النصر: 1] ، فتح مكة، ﴿ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِىْ دِيْنِ اللهِ اَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّه كَانَ تَوَّاباً ﴾ [النصر: 3]
[صحيح مسلم 1/ 351]
سنن أبي داود (2/ 85)
” سمعت بلال بن يسار بن زيد، مولى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت أبي، يحدثنيه عن جدي، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” من قال: أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم، وأتوب إليه، غفر له، وإن كان قد فر من الزحف. “سنن أبي داود : 2/ 85]
” عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَدِمَ الْمِصْرِيُّونَ فَلَقَوْا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: ۔۔۔ وَمَا تَنْقِمَونَ أَيْضًا؟» قَالُوا: تَعْطِيلَ الْحُدُودِ. قَالَ: «وَأَيَّ حَدٍّ عَطَّلْتُ؟ وَمَا وَجَبَ حَدٌّ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَقَمْتُهُ عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ أَنْ تَلْقَوْا غَدًا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَسْتُمْ مِنْهُ فِي شَيْءٍ».[تاريخ المدينة لابن شبة : 3/ 1136]
” وعن أبي هريرة – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (” إن عبداً أذنب ذنباً فقال: رب إني أذنبت ذنباً فاغفره لي) (فقال الله تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنباً، فعلم أن له رباً يغفر الذنب , ويأخذ بالذنب، (قد غفرت لعبدي ، ثم مكث ما شاء الله ثم أذنب ذنباً ، فقال: رب أذنبت ذنباً آخر، فاغفره لي) (فقال الله تبارك وتعالى: عبدي أذنب ذنباً، فعلم أن له رباً يغفر الذنب ويأخذ بالذنب)، (قد غفرت لعبدي، ثم مكث ما شاء الله ، ثم أذنب ذنباً ، فقال: رب أذنبت ذنباً آخر ، فاغفره لي)، (فقال الله تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنباً، فعلم أن له رباً يغفر الذنب ، ويأخذ بالذنب، قد غفرت لعبدي , فليعمل ما شاء “).
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (1/ 135]

واضح رہے کہ ”استغفار” کے معنی ہیں اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی مانگنااور بخشش طلب کرنا یعنی توبہ کرنا، اوراس کی حقیقت اور روح یہ ہے کہ آدمی اپنے گناہوں کو سوچے، جنہوں نے اس کے نفس کو گھیر رکھا ہے، یعنی اس کو میلا اور گندا کررکھا ہے اور پھر اسبابِ مغفرت اختیار کر کے نفس کو ان گناہوں سے پاک کرے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اول باری تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے، اور اس پر ندامت کا اظہار کرے، اور آئندہ گناہ نہ کرنے پختہ عزم کرے اور اس کے بعد صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اس کے لیے کوئی بھی لفظ جس میں اللہ سے معافی مانگنے کا معنی موجود ہو استعمال کیا جاسکتا ہے، اور سوال میں ذکر کردہ الفاظ بھی استغفار کا مفہوم بخوبی و احسن طریقہ سے ادا کرتے ہیں ، “أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّيْ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّأَتُوْبُ إِلَيْهِ” کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے پروردگار سے اپنے تمام گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں، علماءِ کرام نے عربی نہ جاننے والوں کی آسانی کے لیے مختلف احادیث اور استغفار کا مقصد اور روح کو سامنے رکھتے ہوئے استغفار کے یہ جامع الفاظ بتائے ہیں اسی وجہ سے یہ مشہور ہوگئے ہیں ۔ فقط واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسد اللہ بھمبوی حفظہ اللہ

بہتر یہ ہے کہ مسنون الفاظ پڑھ لیں ، وگرنہ کوئی بھی الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں ، عام اَوراد و اَدعیہ میں سلف کے تعامل سے پتا چلتا ہے کہ یہ باب وسیع ہے ۔ اسے اہلِ ظاہر کی طرح تنگ کر دینا کہ فلاں لفظ ثابت نہیں لہذا یہ پڑھے ہی نہیں جا سکتے حالانکہ اُن میں کوئی غیر شرعی چیز بھی نہ ہو وغيرہ وغیرہ، بالکل درست رویہ نہیں۔ واللہ أعلم.

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

اولی یہ ہے کہ مسنون الفاظ پڑھ لیے جائیں ، باقی جن الفاظ کا معنی صحیح ہو وہ پڑھے جا سکتے ہیں ۔ ان الفاظ کو “استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ” میں نے ایک دفعہ دیکھا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک اس کی سند جاتی ہے۔ باقی علماء اس کو ایک دفعہ اور دیکھ لیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ