سوال (2363)

جب مؤذن “اشهد ان محمداً رسول الله” کہے تو ہم وہ ہی الفاظ دہرائیں یا پھر صرف “صلی اللہ علیہ وسلم” کہیں ؟

جواب

‏‏‏‏‏‏سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ” [صحيح البخاري: 611]

«جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو»

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سائل:
اسی طرح کہنے کے بعد “صلی اللہ علیہ وسلم” بھی کہیں گے؟
جواب:
نہیں کہیں گے، آخر میں درود پڑھا جائے گا جو کہ سنت ہے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن
[صحیح مسلم: 383، 384]

اس حدیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤذن کی طرح ہی جواب میں الفاظ دہرائیں گے، جبکہ دوسری حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ حي علی الصلاة، حي على الفلاح کے کلمات سن کر سامعین ﻻ ﺣﻮﻝ ﻭ ﻻ ﻗﻮﺓ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﻠﻪ کہیں گے۔
سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:

ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺇﺫا ﻗﺎﻝ اﻟﻤﺆﺫﻥ: اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، ﻓﻘﺎﻝ ﺃﺣﺪﻛﻢ: اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺣﻲ ﻋﻠﻰ الصلاة، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺣﻮﻝ ﻭﻻ ﻗﻮﺓ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﻠﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺣﻲ ﻋﻠﻰ الفلاح ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺣﻮﻝ ﻭﻻ ﻗﻮﺓ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﻠﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻗﻠﺒﻪ ﺩﺧﻞ اﻟﺠﻨﺔ [صحیح مسلم: 385]
… ﻋﻴﺴﻰ ﺑﻦ ﻃﻠﺤﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺩﺧﻠﻨﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻓﻨﺎﺩﻯ اﻟﻤﻨﺎﺩﻱ ﺑﺎﻟﺼﻼﺓ، ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، ﻓﻘﺎﻝ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ: اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ، اﻟﻠﻪ ﺃﻛﺒﺮ ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ: ﻭﺃﻧﺎ ﺃﺷﻬﺪ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺎﻣﺮ: ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ – ﻗﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ: ﻭﺃﻧﺎ ﺃﺷﻬﺪ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺎﻣﺮ: ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ ﻳﺤﻴﻰ: ﻓﺤﺪﺛﻨﺎ ﺭﺟﻞ ﺃﻧﻪ ﻟﻤﺎ- ﻗﺎﻝ: ﺣﻲ ﻋﻠﻰ اﻟﺼﻼﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺣﻮﻝ ﻭﻻ ﻗﻮﺓ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﻠﻪ “، ﻗﺎﻝ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ: ” ﻫﻜﺬا ﺳﻤﻌﺖ ﻧﺒﻴﻜﻢ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ
[مسند أحمد بن حنبل: 16828]

مسند أحمد کے محققین نے کہا:

ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﺇﻟﻰ ﻗﻮﻟﻪ: “ﻭﺃﻧﺎ ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ” ﺻﺤﻴﺢ ﻋﻠﻰ ﺷﺮﻁ اﻟﺸﻴﺨﻴﻦ، ﻭﺑﺎﻗﻴﻪ ﺻﺤﻴﺢ ﻟﻐﻴﺮﻩ۔۔۔۔۔۔
ﻋﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻭﻗﺎﺹ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ” ﻣﻦ ﺳﻤﻊ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﻳﺘﺸﻬﺪ ﻓﺎﻟﺘﻔﺖ ﻓﻲ ﻭﺟﻬﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ ﻭﺣﺪﻩ ﻻ ﺷﺮﻳﻚ ﻟﻪ، ﻭﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺭﺿﻴﺖ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺭﺑﺎ، ﻭﺑﺎﻹﺳﻼﻡ ﺩﻳﻨﺎ، ﻏﻔﺮ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﻣﻦ ﺫﻧﺒﻪ
[صحیح ابن خزیمہ: 422]

مگر يتشهد کی زیادت صحیح مسلم وغیرہ میں نہیں ہے۔
تو نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کا ذکر خیر سن کر درود پڑھنا چاہیے ہے تو اذان میں بھی جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ذکر ہوتا ہے تو ذکر کردہ احادیث کی روشنی میں درود لازمی پڑھنا ہے یعنی صلى الله عليه وسلم کہنا ہے۔

ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: اﻟﺒﺨﻴﻞ ﻣﻦ ﺫﻛﺮﺕ ﻋﻨﺪﻩ، ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﺼﻞ ﻋﻠﻲ.
[مسند أحمد بن حنبل: 1736، سنن ترمذى: 3546 سنده حسن لذاته] ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺴﻴﻦ صدوق إن شاءالله
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺭﻏﻢ ﺃﻧﻒ ﺭﺟﻞ ﺫﻛﺮﺕ ﻋﻨﺪﻩ ﻓﻠﻢ ﻳﺼﻞ ﻋﻠﻲ
[مسند أحمد بن حنبل: 7451 سنده حسن لذاته]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو انس طیبی حفظہ اللہ

مؤذن کے الفاظ “اشھد ان محمدا الخ” سن کر یا یہی کلمہ کہنے کے ساتھ مختصر درود پڑھا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان شاء اللہ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ