الحاد اور اس کی سیڑھیاں کیا کیا ہوسکتی ہیں۔ اس حوالے سے قرآن مجید نے بہت واضح قسم کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یہ پورا مضمون انبیاء اور ان کے اقوام کے درمیان ہونے والے مکالمات میں بکھرا پڑا ہے۔ از قوم نوح تا قوم رسول عربی، ایک تسلسل ہے خاص ذہنیت کا۔ وہی تسلسل آج بھی انسان کو دین سے دور کرتا ہے۔ اس ذہنیت کا خلاصہ حافظے سے رکھتا ہوں، کمی بیشی معاف کیجئے گا :

1۔ تکبر، اللہ کی طرف بلانے والے کو خود سے کمتر اور حقیر جاننا۔ یہ بنیادی وجہ بار ہا بیان ہوئی ہے قرآن میں۔ لوگ اپنے انبیاء سے کہا کرتے تھے کہ تمہارے ماننے والوں کی حیثیت کیا ہے۔ قوم کے کمترین لوگ ہیں بیچارے!

2۔ مترفین، یعنی امیر طبقہ، ضروری نہیں کہ امیر سے مراد پیسے والا پورا طبقہ ہو، بلکہ عمومی نفسیات ہیں۔ کاپر اور پھر دولت والا کاپر سنبھالنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ انبیاء کے مقابلے میں سب سے زیادہ شدت سے سوال جواب اٹھایا کرتے تھے۔ ویسے بھی فلسفیانہ سوال جواب فارغ البال لوگوں کا ہی کام ہوتا ہے۔ ہم کیسے زندہ کئے جائیں گے سے لے کر تو عذاب لے آ تک یہی فلسفیانہ اپروچ کی تاریخ کھڑی ہے۔

3۔ گناہوں میں لتھڑے ہوئے لوگ، معصیت کا انسانی ذہن پر شدید رد عمل ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے اللہ کی مسلسل نافرمانی اس سے ایمان کا ادنی ذرہ بھی چھین کر لے جاتی ہے۔ کیوں کہ ایمان کا گھٹنا بڑھنا ایک معلوم حقیقت ہے۔

4۔ تقلید آباء، تقلید آباء اصلا مرعوبیت اور تعصب سے نکلی ہوئی مصیبت ہے۔ اسی لئے میں جدید سائنس کی اندھ بھکتی کو بھی تقلید آباء ہی صورت میں شمار کرتا ہوں۔ کیوں کہ اس کے پیچھے کار فرما ذہنیت وہی ہے۔ ہمارے بڑوں نے کہا ہے۔ وہ بھلا جھوٹے ہوسکتے ہیں۔ سائنس کے بڑوں نے کہا ہے۔ فلسفے کے بڑوں نے کہا ہے۔ مذہب کے بڑوں نے کہا ہے وغیرہ وغیرہ

 

5 ۔ شدید رہبانیت، جسے قرآن نے بدعت کہا ہے۔ اس کی تفصیل کیجئے تو بعض معاملات کو لے کر شدت برتنے والا جب شدت چھوڑتا ہے تو پھر وہ اعتدال کی طرف نہیں جاتا، بلکہ سرے سے دین کو ہی چھوڑنے کے در پئے ہوجاتا ہے۔ یورپ میں عیسائیت کے ساتھ سب سے بڑی ٹریجڈی یہی ہوئی۔ کہ انہوں نے یونانی فلسفے کے زیر اثر شادی وغیرہ اور جائز حاجات کو بھی حرام کر رکھا تھا۔ نتیجہ کے طور پر بہ قول قرآن وہ اس کی رو رعایت نہیں رکھ سکے اور جب پریس کے آنے سے ان کے اندرون خانہ معاملات سامنے آنے لگے تو یکایک کلیسا کا بت لوگوں کے ذہنوں سے نکل گیا۔ اور جب کسی کی تقدیس ذہن سے نکلتی ہے تو پھر اس کی اچھائی بھی اچھی نہیں لگتی۔

6۔ شعائر اللہ کی بے ادبی، اسلامی شعائر کو لے کر بے عمل ہونا الگ چیز ہے۔ لیکن ان کی بے ادبی کا لازمی نتیجہ عذاب ہی نکلتا ہے۔ کیوں کہ پیراڈائم شفٹ کے بغیر انسان بے ادبی پر نہیں اترتا۔ صالح کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کے پیچھے کار فرما ذہنیت اس کی تقدیس ختم کرنے کی ہی ہوتی ہے۔ ہمارے بھائی حسیب خان صاحب کی ایک پوسٹ کا تعلق اسی صورت سے تھا۔ جسے یار لوگوں نے ٹوپی میں چھپا دیا۔ ٹوپی شعائر اللہ چھوڑ میرے نزدیک سرے سے دین کا حصہ ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی اسے دین کا حصہ سمجھ کر پھر اتار کر اس سے حقارت کرے تو اس کا نفسیاتی تجزیہ نہر حال ضروری ہے۔ جیسے داڑھی کاٹنا برا ہے۔ لیکن داڑھی کو حقیر سمجھ کر کاٹنا الحاد کا کھلا رستہ ہے۔ الخ

7۔ غیب کا انکار، غیبیات کا انکار بسا اوقات کلی ہوتا ہے۔ اس کے کپر ہونے میں تو کسی کو انکار نہیں۔ لیکن” وھی رمیم” کی صورت بھی سیدھی سیدھی انکار غیب ہے۔ اس کی تفصیل میں معجزات کا انکار، کرامات کا مذاق، یا ما بعد الطبیعات کو طبیعات سے سلجھانے کی کوشش آتی ہیں۔ اس کی مثال میں یوں دیا کرتا ہوں کہ اگر اگر عیسی علیہ السلام کے بن پاب پیدا ہونے، عزیر علیہ السلان کے تین سو سال تک سونے، تخت بلقیس اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کے پرندوں سے باتیں کرنے سے لے کر بخاری میں رسول اللہ کے فرمان کہ بھیڑے یا بیل نے گفتگو کی، ان سب چیزوں کی توجیہ کے لئے آپ کو سائنسی مثالیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں یا مغرب کے سائنس دانوں کی آراء ڈھونڈنا پڑتی ہیں تو یقین مانئے خود آپ کے عقیدہ غیب کو اچھا خاصہ مسئلہ درپیش ہوچکا ہے۔

8۔ کپار اور کپر سے محبت اور ان کی مسلسل صحبت، لا تجد قوما، کی سادہ سی تشریح یہی ہے کہ کپر سے اس طرح کا میل جول جو تم سے عقیدہ چھین کر لے جائے کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اس میں یورپی ممالک میں جانے والے مسلمانوں کے لئے سوچنے کا خاص مرحلہ موجود ہے کہ آیا آپ اپنی اگلی نسل کا دین سنبھال سکیں گے؟ اگر ہاں تو شوق سے جائیے۔ مفتی کا فتوی مل جائے گا۔۔اگر نہیں تو پھر جواب اللہ کے ہاں مفتی نے نہیں آپ نے دینا ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں کیس ٹو کیس ہیں۔ کئی باہر ملکوں میں جانے والے عام لوگوں نے اپنے دین و ایمان کا تحفظ ایسا کیا کہ ان کی آولادیں ہم سے زیادہ دین دار ہیں اور کئی علمائے کرام کے بچے ملحد ہو گئے۔

نوٹ : الحاد سے بچنے کا سب سے کارگر حل استفغفار کی کثرت ہے۔ جیسا کہ قرآن بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہے۔

نوٹ : بہت سی چیزیں رہ گئی ہیں۔ احاطہ مطلوب نہیں تھا بس بنیادی چیزیں بیان کرنا مطلوب تھا۔

 

ابو الوفا محمد حماد اثری