سوال           (95)

کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ جو پیسے اللہ کے راستے میں دیے جائیں وہ اپنے بہن بھائیوں اور مہمانوں پر خرچ کیے جا سکتے ہیں  ؟

جواب

سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 “الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَخَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ”. [صحيح البخاري : 1427]

’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں کے مال سے بےنیاز رہتا ہے ، اسے اللہ تعالیٰ بےنیاز ہی بنا دیتا ہے‘۔

سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَوْ خَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ”. [صحيح مسلم : 1034]

’’افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد صدقہ دینے والا غنی رہے یعنی یہ نہیں کہ سب مال لٹا کر آپ فقیر ہو بیٹھے اور اوپر کا ہاتھ بہتر ہے نیچے کے ہاتھ سے اور صدقہ پہلے اس کو دے جس کا نان نفقہ اپنے ذمہ ہے‘‘۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں :

 “أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عُذْرَةَ عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَلَكَ مَالٌ غَيْرُهُ؟، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ: ” مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟ ” فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَدَوِيُّ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، فَجَاءَ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ” ابْدَأْ بِنَفْسِكَ فَتَصَدَّقْ عَلَيْهَا، فَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ فَلِأَهْلِكَ، فَإِنْ فَضَلَ عَنْ أَهْلِكَ شَيْءٌ فَلِذِي قَرَابَتِكَ، فَإِنْ فَضَلَ عَنْ ذِي قَرَابَتِكَ شَيْءٌ، فَهَكَذَا وَهَكَذَا يَقُولُ، فَبَيْنَ يَدَيْكَ وَعَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ”. [سنن النسائي: 2548]

’’ایک شخص نے ایک غلام آزاد کیا اپنے مرنے کے بعد یعنی کہا کہ تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے اور اس کی خبر پہنچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے پاس اور مال ہے اس کے سوا ؟ اس نے کہا: نہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون خریدتا ہے اس کو مجھ سے؟“ تو نعیم نے اس کو آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور درہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک غلام کو دے دیئے اور فرمایا: ”پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو پھر اگر بچے تو اپنے گھر والوں پر، پھر بچے تو اپنے ناتے والوں پر، پھر بچے تو ادھر اُدھر۔“ اور اشارہ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور داہنے اور بائیں‘‘۔

ان احادیث سے معلوم ہوا ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنی اور اپنے اہل و عیال اور زیرِ کفالت افراد کی ضروریاتِ زندگی پوری کرے۔ پھر صدقہ و خیرات کرے اور وہ بھی پہلے رشتہ داروں پر پھر دوسرے افراد پر کیوں کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنا انسان پر فرض ہے اور صدقہ و خیرات کرنا نفلی چیز ہے۔ لہٰذا فرض کو مقدم کرے ایسا نہ ہو کہ مال صدقہ و خیرات کردے اور اس کے بعد خود اور اس کے اہل و عیال لوگوں کے محتاج اور دست نگر ہو جائیں۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

دوسروں پر خرچ کرنا منع نہیں ہے ، لیکن اہل و عیال، عزیز و اقارب، قرب و جوار والے پہلے حقدار ہیں ۔ اس کے علاوہ متعدد روایات سے ثابت سے ہے کہ گھر والوں پر خرچ کرنا بہترین صدقہ ہے ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ابو ھیثم نعمان خلیق حفظہ اللہ