سوال
ایک بہن کا سوال ہے کہ انکے رحم میں رسولیاں ہو گئی ہیں۔جسکی وجہ سے 18 دن سے حیض کا خون مسلسل جاری ہے ۔ جبکہ عادت کے ایام اکثر چھ یا سات دن رہتے ہیں ،اس بہن کے لیے نماز کا کیا حکم ہے؟کیا وہ ایسی صورت حال میں نماز ادا کر سکتی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
خواتین کو تین طرح کے خون آتے ہیں: حیض ، نفاس اور استحاضہ۔
عام ماہواری کو حیض کہتے ہیں، جبکہ بچے کی ولادت کے بعد آنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔ ان دونوں کے دوران عورت کو نماز، روزہ معاف ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ جو خون آتا ہے، وہ بیماری کے سبب ہوتا ہے، اس کو استحاضہ کہتے ہیں۔ اس میں نماز روزہ معاف نہیں ہے۔
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے ،اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
“لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي”. [ صحیح البخاری:325]
’نہیں یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو‘۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
“وَلَيْسَ بِالْحَيْضَةِ فَإِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي “. [سنن النسائی:212]
’یہ حیض کا خون نہیں ہے۔ جب حیض آنے لگے، تو ان دنوں میں نماز چھوڑ دو، اور جب اتنے ایام ختم ہوجائیں، تو اپنے بدن سے خون دھولو اور نماز پڑھو‘۔
مذکورہ بہن کے لئے حکم یہ ہے کہ ان کے معتاد یعنی ماہواری کے ایام کو حیض شمار کیا جائے گا۔ جب وہ گزر جائیں، تو اس وقت غسل کر لیں تاکہ پاکی حاصل ہوجائے۔ اس کے بعد جو خون آئے گا، چاہے قطرہ قطرہ ہی کیوں نہ ہو، وہ بیماری کی وجہ سے ہے، اسے استحاضہ شمار کیا جائے گا۔ اس میں حکم یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے الگ وضو کرلیں، فرض نماز کے ساتھ سنت اور نوافل بھی پڑھ سکتی ہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن عبد الحنان حفظہ اللہ