سوال

ایک لڑکے اور لڑکی کے آپس میں ناجائز تعلقات تھے ،انہوں نے آپس میں عہد و پیمان کر رکھا تھا کہ ہم نکاح کریں گے۔ لیکن اتفاق ایسے ہوا کہ لڑکے کی آگے شادی ہو جاتی ہے۔ اس لڑکی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اور وہ ابھی بھی بضد ہے کہ وہ اسی لڑکے سے شادی کروائے گی۔ مگر لڑکی کا باپ  نہیں  مان رہا، کیونکہ سابقہ ناجائز تعلقات کی بنا پر وہ نہیں چاہتا کہ میں اپنی بیٹی اس شخص کے نکاح میں دوں۔

اب ہوا یوں ہے کہ لڑکی کی ماں اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر بیٹے کو ولی بنا کر بیٹی کی ادھر ہی لڑکے کے ساتھ شادی کر دیتی ہے ،جس کی پہلے شادی ہو چکی ہے۔ باپ کی اجازت کے بغیر بیٹے کو ولی بنا کر شادی کرنے کے بعد ماں نے بیٹی کی رخصتی بھی کر دی ہے۔ کیا اس صورت میں نکاح جائز ہے ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ایک ولی اقرب ،اور ایک ابعد ہوتا ہے ،  ولی اقرب کی موجودگی میں  ابعد کو ولی نہیں بنایا جاسکتا إلا یہ کہ کوئی معقول عذر   اور وجہ ہو۔

  • یہاں صورت حال یہ ہے کہ باپ اس لیے ادھر شادی نہیں کرنا چاہتا کہ بیٹی اور اس لڑکے کے آپس میں ناجائزتعلقات تھے، جبکہ بیٹی اس ناجائز محبت کی وجہ سے ادھر شادی کرنا چاہتی ہے، ہمارے خیال میں باپ کا موقف درست ہے۔
  • اب ماں نے جو کردار ادا کیا ہے یہ بالکل غلط ہے کہ اپنے بیٹے  یعنی لڑکی کے بھائی، کو ولی بنا کر شادی کروا دی ہے اور باپ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ جب باپ موجود ہے اور وہ عاقل و بالغ ہے ،سمجھدار ہے، تو اس کی موجودگی میں ہم بیٹے،یعنی لڑکی کے بھائی، کو کس طرح ولی مان سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔
  • درست رستہ یہ ہے کہ اگر وہاں نکاح کرنا بھی ہے، تو اس کے لیے باپ کو اعتماد میں لیا جائے، اسے اس رشتے کے لیے قائل کیا جائے، اور اگر وہ بات نہیں مانتا، تو پھر باپ کو نظر انداز کرکے نکاح کرنا ، درست نہیں،  اس میں جہاں ماں گناہگار ہے ،وہاں بھائی اور لڑکی بھی گناہگار ہے۔  باپ کو چھوڑ کر اور اسے نظر انداز کر کے آگے شادی کرنا  شرعا جائز نہیں ہے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ