سوال

کسی انسان کی وفات کے بعد  سب ورثا اس کی جائیداد میں شریک ہوتے ہیں،لیکن کوئی ایک وارث سب کی رضامندی کے ساتھ ( یا جبرا ) پوری جائیداد کا مالک   بن سکتاہے؟  مسئلہ یہ ہے کہ  1984ء میں میرے سسر فوت ہوئے تھے، ان کا بڑا بیٹا تو الگ رہتا تھا، جبکہ بقیہ سب ایک جگہ تھے، اور اس مشترکہ گھر کا انتظام وانصرام جس بھائی کے سپرد تھا، اس نے کہا کہ چونکہ میں سب اخراجات برداشت کر رہا ہوں، لہذا مالی اعتبار سے مجھے سپورٹ کی ضرورت ہے، لہذا سب سے بڑے بھائی نے اس کا طریقہ یہ نکالا کہ والد کی ساری جائیداد اس بھائی کے نام لگوادی، جو مشترکہ گھر کو چلا رہا تھا، لہذا دیگر بہن بھائیوں نے عدالت میں جاکر انگوٹھے وغیرہ بھی لگادیے،  اب وہ دونوں بھائی (سب سے بڑا، اور اس سے چھوٹا) فوت ہوچکے ہیں، جبکہ اس سے چھوٹے بہن بھائیوں کا مطالبہ ہے کہ ہمیں ہمارے والد کی جائیداد سے حصہ دیا جائے۔ اس حوالے سے ہمیں شرعی رہنمائی درکار ہے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس  سوال کے حوالے سے چندگزارشات پیشِ خدمت ہیں:

  • جو سوال باعث الجھن ہوسکتے ہیں، اور ان میں غلط فہمی کا اندیشہ ہوسکتا ہے، کوشش کیا کریں کہ انہیں صاف ستھرا لکھ، اور خود ایک بار پڑھ کر دیکھیں، اگر خود سمجھ آرہا ہے، تو پھر مفتیانِ کرام کی خدمت میں پیش کریں۔ آپ نے جو وائس بھیجی ہے، اس  کو بار بار سن کر ہم نے وہ عبارت نکالی ہے، جو اوپر بطور سوال درج ہے۔ لہذا کمی کوتاہی ہو، تو آئندہ سوال خود لکھ کر بھیجیے گا۔ جزاک اللہ خیرا۔
  • کوئی بھی آدمی جب فوت ہوتا ہے،تو شرعى طور پر وہ مال  اس کے ورثا کی ملکیت میں چلا جاتا ہے، البتہ  اسکی باقاعدہ   تقسيم اور قانونی کاروائی باقی رہ جاتی ہے۔  لہذا میت کی وفات کے بعد تمام ورثا کے حصے ان کو دے دینے چاہییں۔ میت کی وراثت کی تقسیم بھی تجہیز وتکفین کیطرح کا ایک حق ہے، جس کی ادائیگی ورثا پر فرض ہے۔
  • بہن بھائیوں، مرد وعورت سب کے حصے ان میں تقسیم کردیے جائیں، تو باقاعدہ ملکیت وقبضے میں لینے کے بعد اگر وہ  راضی خوشی کسی کو اپنا حصہ دینا چاہییں، تو یہ ان کا اختیار ہے، جو وہ استعمال کرسکتے ہیں۔  لیکن ہمارےہاں بعض دفعہ اس قسم کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ بعض ورثا کو ایموشنل بلیک میل کرکے، انہیں اپنا حصہ نہ لینے، یا کسی کو دینے پر راضی کرلیا جاتا ہے، اور بالخصوص خواتین یعنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے، جو کہ ظلم  ہے، اور کسی طور درست نہیں۔
  • ایک اور غلط رویہ بھی معاشرے میں رائج ہے کہ بعض دفعہ بہن یا بیٹی کے سسرال والے اسے مجبور ( یا  ایموشنل بلیک میل)  کرتے ہیں کہ وہ اپنی وراثت سے حصہ کیوں نہیں لے کر آتی؟ ہمارے خیال میں اگر کوئی   مرد یا عورت وارث واقعتا راضی خوشی اپنا حصہ کسی کو دے دے، تو اس کے سسرال کا یا اس کے خاوند یا اولاد کا اسے حصہ مانگنے پر مجبور کرنا بھی درست رویہ نہیں ہے۔
  • آپ نے جو سوال پوچھاہے، ہمارے مطابق اس میں دو خرابیاں تھیں، ایک تو آپ کے سسر کی وفات کے فورا بعد وراثت تقسیم کرنے میں کوتاہی کی گئی ہے، جبکہ دوسری بات بعض ورثا کو ان کا حصہ ان کی ملکیت اور قبضے میں دینے کی بجائے، ان سے دستخط کروا لیے گئے ہیں ، جو کہ درست نہیں۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ