سوال (4153)
کیا عید کی اجتماعی دعا کروانا خطبہ کے بعد یہ ثابت ہے؟ اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے؟
جواب
دیکھیں دو ٹوک الفاظ تو نہیں ملتے ہیں، لیکن عورتوں کے لیے گیا ہے.
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ، [صحيح البخاري : 971]
سیدہ ام عطیہ فرماتی ہیں کہ (نبی کریم ﷺ کے زمانہ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔
اس روایت میں دعا اور تکبیر کے الفاظ ہیں ، یہاں دعا کی تاویل ذکر و اذکار سے کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ تکبیر کے الفاظ بھی ہیں، اس لیے یہ دعا کے لیے صریح الفاظ موجود ہیں، ہمارے اسلاف بھی دعا کرتے رہے ہیں، قریب کے لوگوں میں آج کل لوگوں نے بدعت کا فتویٰ دیا ہے، بہرحال ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ہمارے نزدیک تاویلات ہیں، دعا پہلے بھی تھی، ابھی بھی ہے اور دعا ضرورت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ