سوال (2150)

“وَ حَدَّثَنِی یَحْیَی عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ ابْنِ أُکَیْمَۃَ اللَّیْثِیِّ عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاۃٍ جَہَرَ فِیہَا بِالْقِرَاءة فَقَالَ : ھلْ قَرَأَ مَعِی مِنْکُمْ أَحَدٌ آنِفاً . فَقَالَ : رَجُلٌ نَعَمْ أَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ. قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ : إنِّی أَقُولُ مَا لِی أُنَازَعُ الْقُرْآنَ . فَانْتَہَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءۃِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ ، فِیمَا جَہَرَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ بِالْقِرَاءۃِ حِینَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ”

«حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں آپ ﷺ نے جہری قراءت کی تھی، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:’’ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ساتھ قراءت کی تھی؟‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا کہ جی ہاں، اے اللہ کے رسول! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک میں بھی کہوں میں بھی دل میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا ہو گیا ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے تو وہ تمہاری قراءت تھی جو میرے لیے الجھاؤ اور پریشانی کا باعث بن رہی تھی، چنانچہ جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو وہ آپ کے ساتھ اُن نمازوں میں قراءت کرنے سے رُک گئے جن میں آپ جہری قراءت فرماتے تھے۔
اس حدیث کی توضیح درکار ہے؟

جواب

ﻭﺣﺪﺛﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ، ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺷﻬﺎﺏ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺃﻛﻴﻤﺔ اﻟﻠﻴﺜﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﻧﺼﺮﻑ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ ﺟﻬﺮ ﻓﻴﻬﺎ ﺑﺎﻟﻘﺮاءﺓ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻞ ﻗﺮﺃ ﻣﻌﻲ ﻣﻨﻜﻢ ﺃﺣﺪ ﺁﻧﻔﺎ؟ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺟﻞ: ﻧﻌﻢ. ﺃﻧﺎ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ، ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺇﻧﻲ ﺃﻗﻮﻝ ﻣﺎ ﻟﻲ ﺃﻧﺎﺯﻉ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮ ﻓﻴﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺎﻟﻘﺮاءﺓ، ﺣﻴﻦ ﺳﻤﻌﻮا ﺫﻟﻚ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ
[موطا امام مالك :1/ 86 ، 44 ، سنن ابو داود : 826 ،827 ، سنن ترمذی : 312]

اور یہ روایت کئی کتب احادیث میں کئی طرق سے مروی ہے، لیکن میں یہاں سب طرق کو جمع کر کے کوئی حکم و نتیجہ اخذ نہیں کروں گا بس یہ بتاؤں گا کہ فانتھی الناس سے آگے تک کے الفاظ مدرج ہیں اور ابن اکیمہ سے آگے سعید بن مسیب کا واسطہ سنن ابو داود: 827 مسند الحمیدی: 983 وغیرہ میں ہے۔
اس حدیث کو سمجھنے کے لیے اسی مسئلہ کی دیگر صحیح احادیث کو ساتھ ملا کر سمجھیں گے تو سمجھ جائیں گے جن میں سورہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی صراحت ہے، تفصیل امام بیھقی، امام بخاری کی دو خاص کتب میں دیکھیے اور عالم کبیر الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب کی کتاب اور محقق شہیر حافظ زبیر علی زئی رحمه الله تعالى کی کتب میں دیکھیے جو خاص اسی مسئلہ پر لکھی گئیں ہیں۔
پھر مبھم و مفسر، مجمل و مفصل، عموم و خصوص کا خاص خیال رکھنا چاہیے، اس روایت میں قراءت کونسی تھی، اس کی صراحت ہی نہیں ہے تو ہم کس صحیح دلیل کی بنیاد پر یہاں سے سورہ فاتحہ مراد لے رہے ہیں، جبکہ راوی حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ خود “اﻗﺮﺃ ﺑﻬﺎ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻚ” کے ساتھ پڑھنے کی صراحت فرما رہے ہیں اور موطا امام مالک وغیرہ میں یہ روایت موجود ہے، پھر مسند أحمد بن حنبل وغیرہ میں خاص روایت موجود ہے، سورہ فاتحہ کے امام کے پیچھے جہری نماز میں پڑھنے پر تفصیل اوپر کے شیخین کریمین کی کتب میں دیکھ سکتے ہیں۔
ائمہ محدثین سے امام ترمذی وغیرہ نے اس پر اچھی وضاحت کر رکھی ہے، اسے ملاحظہ فرمائیں۔
اور امام بخاری کی القراءة خلف الإمام پڑھیے، میں بس اختصار سے کچھ باتیں عرض کیے دیتا ہوں کہ “فانتهى الناس” کے الفاظ مدرج ہیں، اصل حدیث”ﻣﺎ ﻟﻲ ﺃﻧﺎﺯﻉ اﻟﻘﺮﺁﻥ” تک ہے، اس حدیث میں “ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ” کے الفاظ روایت حدیث نہیں ہیں، بلکہ یہ اضافہ امام زھری کی طرف سے ہے اور انہوں نے یہ الفاظ کس سے سنے اسے بیان نہیں کیا ہے۔
امام بخاری نے کہا:

“ﻭ ﻗﻮﻟﻪ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻭﻗﺪ ﺑﻴﻨﻪ ﻟﻲ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺻﺒﺎﺡ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺒﺸﺮ، ﻋﻦ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻗﺎﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ: ﻓﺎﺗﻌﻆ اﻟﻤﺴﻠﻤﻮﻥ ﺑﺬﻟﻚ ﻓﻠﻢ ﻳﻜﻮﻧﻮا ﻳﻘﺮﺅﻭﻥ ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮ. ﻭﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ: ﻗﺎﻝ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﻟﻠﺰﻫﺮﻱ: ﺇﺫا ﺣﺪﺛﺖ ﻓﺒﻴﻦ ﻛﻼﻣﻚ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ”
[القراءة خلف الإمام : 68]

اسی بات کی وضاحت امام ابوداود کی سنن ابو داود میں اس روایت کے بعد ائمہ کرام اور اہل علم سے یوں موجود ہے۔

ﻗﺎﻝ ﻣﺴﺪﺩ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ: ﻗﺎﻝ ﻣﻌﻤﺮ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮ ﺑﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﺴﺮﺡ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ: ﻗﺎﻝ ﻣﻌﻤﺮ: ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ، ﻭﻗﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺰﻫﺮﻱ: ﻣﻦ ﺑﻴﻨﻬﻢ، ﻗﺎﻝ ﺳﻔﻴﺎﻥ: ﻭﺗﻜﻠﻢ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﺑﻜﻠﻤﺔ ﻟﻢ ﺃﺳﻤﻌﻬﺎ، ﻓﻘﺎﻝ ﻣﻌﻤﺮ: ﺇﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻭﺭﻭاﻩ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻭاﻧﺘﻬﻰ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺇﻟﻰ ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﺎ ﻟﻲ ﺃﻧﺎﺯﻉ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻭﺭﻭاﻫﺎ ﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ: ﻗﺎﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ: ﻓﺎﺗﻌﻆ اﻟﻤﺴﻠﻤﻮﻥ ﺑﺬﻟﻚ ﻓﻠﻢ ﻳﻜﻮﻧﻮا ﻳﻘﺮءﻭﻥ ﻣﻌﻪ ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮ ﺑﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻓﺎﺭﺱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ
[سنن ابو داود : 827]
الفصل للوصل المدرج في النقل میں ہے
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻓﺎﺭﺱﺻﺎﺣﺐ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻗﺎﻝ: ﻣﻨﺘﻬﻰ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﺃﻛﻴﻤﺔ ﺇﻟﻰ ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﺎ ﻟﻲ ﺃﻧﺎﺯﻉ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻭﻗﻮﻟﻪ: ” اﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ” ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ
[الفصل للوصل المدرج في النقل :1/ 296]

امام خطیب بغدادی نے کہا:

اﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻣﺪﺭﺟﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[الفصل للوصل المدرج في النقل:1/ 295]

اور اسی بحث و تفصیل میں ایک جگہ ہے

ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﺃﻧﻪ ﻛﻼﻡ اﺑﻦ ﺷﻬﺎﺏ اﻟﺰﻫﺮﻱ
[الفصل للوصل المدرج في النقل:1/ 292]

اس روایت پر تفصیل سے دیکھیے ۔

[الفصل للوصل المدرج في النقل : 1/ 290 تا 301]

حافظ ابن حجر مدرج کی بحث میں لکھتے ہیں:

“ﺑﻴﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺬﻫﻠﻲ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻣﻦ اﻟﺤﻔﺎﻅ ﺃﻥ ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮﻩ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﺃﺩﺭﺝ ﻓﻲ اﻟﺨﺒﺮ”
[النكت على كتاب ابن الصلاح : 2/ 823]
مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح میں ہے
ﻭ ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ ﻓﺬﻛﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻗﺎﻝ ﻣﻌﻤﺮ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻓﻲ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺠﻬﺮ ﺑﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﺧﻔﻴﺖ ﻋﻠﻰ ﻫﺬﻩ اﻟﻜﻠﻤﺔ ﻭﻗﺎﻝ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻭﺫﻛﺮاﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ ﺇﻟﻰ ﻗﻮﻟﻪ ﺇﻧﻲ ﺃﻗﻮﻝ ﻣﺎ ﺑﺎﻟﻲ ﺃﻧﺎﺯﻉ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻓﻠﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا ﻗﺎﻟﺬﻱ ﻧﺮﻯ ﺃﻥ ﻗﻮﻟﻪ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ ﺃﻧﻪ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ
[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح : 888 ، 2/ 281 ،282]
ﻭ ﻗﺎﻝ ﻟﻴﺚ ﺣﺪﺛﻨﻲ اﺑﻦ ﺷﻬﺎﺏ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻞ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ، ﻭﻗﺎﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﻫﺬا ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻭﻗﺎﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﻫﺬا ﻗﻮﻝ اﺑﻦ ﺃﻛﻴﻤﺔ ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ
[التاريخ الكبير للبخارى : 9/ 38]

امام بخاری نے کہا:

ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻭﻫﻮ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ
ﺣﺪﺛﻨﻲ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﺼﺒﺎﺡ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺒﺸﺮ ﻋﻦ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻗﺎﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻓﺎﺗﻌﻆ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺬﻟﻚ ﻓﻠﻢ ﻳﻜﻮﻧﻮا ﻳﻘﺮءﻭﻥ ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮ ﻭﺃﺩﺭﺟﻮﻩ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻟﻴﺲ ﻫﻮ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭاﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺄﻣﺮ ﺑﺎﻟﻘﺮاءﺓ
[التاريخ الاوسط للبخارى :1/ 177]

حافظ ابن حزم نے کہا:

ﻭ ﻓﻴﻪ ﻣﻦ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ [المحلى لابن حزم : 2/ 269]

تحرير علوم الحديث میں ہے، الإدراج کے تحت لکھا ہے۔

ﻗﻠﺖ : ﻓﻬﺬﻩ اﻟﺠﻤﻠﺔ “ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ” ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮﻩ، ﻣﻤﺎ ﺃﺩﺭﺟﻪ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻲ ﻗﻮﻝ ﻋﺎﻣﺔ ﻣﺘﻘﺪﻣﻲ اﻟﻨﻘﺎﺩ ﻣﻤﻦ ﺗﻌﺮﺽ ﻟﻠﻘﻮﻝ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻛﺎﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺬﻫﻠﻲ ﻭﺃﺑﻲ ﺩاﻭﺩ اﻟﺴﺠﺴﺘﺎﻧﻲ ﻭاﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻭاﻟﺨﻄﻴﺐ، ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ، ﻭﺑﻴﻨﻮا ﻭﺟﻪ ﺫﻟﻚ ﻭﺣﺠﺘﻪ ﺑﻤﺎ ﻳﻄﻮﻝ اﻟﻤﻘﺎﻡ ﺑﺘﻔﺼﻴﻠﻪ
ﻭﻫﻲ ﻋﺒﺎﺭﺓ ﻻ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﺇﻻ ﺑﺘﻮﻗﻴﻒ؛ ﻷﻧﻬﺎ ﺧﺒﺮ، ﻓﻼ ﺑﺪ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺗﻠﻘﺎﻫﺎ ﺑﻮاﺳﻄﺔ ﺑﻴﻨﻪ ﻭﺑﻴﻦ ﺯﻣﺎﻥ اﻟﻨﺒﻮﺓ، ﻭﻟﻴﺴﺖ ﺗﻠﻚ اﻟﻮاﺳﻄﺔ ﻓﻲ اﻟﺮاﺟﺢ: اﺑﻦ ﺃﻛﻴﻤﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺇﺫ ﻻ ﺗﺴﺎﻋﺪ اﻟﺮﻭاﻳﺎﺕ ﻋﻠﻰ ﺗﺼﺤﻴﺢ ﺫﻟﻚ، ﻓﻬﻲ ﺇﺫا ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﺮﺳﻠﺔ.
ﻓﻴﻜﻮﻥ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻗﺪ ﺃﺩﺭﺝ ﺑﻌﺾ ﻣﺎ ﻫﻮ ﻣﺮﺳﻞ ﻓﻴﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﻮﺻﻮﻝ
[تحرير علوم الحديث لابن الجديع : 2/ 682]
ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ: ﻭﻗﻮﻟﻪ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ، ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮﻓﻴﻪ، ﻣﻦ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ
ﻗﺎﻟﻪ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺬﻫﻠﻲ، ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺰﻫﺮﻳﺎﺕ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، ﻭﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ اﻟﺴﺠﺴﺘﺎﻧﻲ،
[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 3749 ،3750]

آگے لکھا ہے ۔

ﻭ اﺳﺘﺪﻟﻮا ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﺑﺮﻭاﻳﺔ اﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﺣﻴﻦ ﻣﻴﺰﻩ ﻣﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻭﺟﻌﻠﻪ ﻣﻦ – ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻓﻜﻴﻒ ﻳﺼﺢ ﺫﻟﻚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻳﺄﻣﺮ ﺑﺎﻟﻘﺮاءﺓ ﺧﻠﻒ اﻹﻣﺎﻡ، ﻓﻴﻤﺎ ﺟﻬﺮ ﺑﻪ ﻭﻓﻴﻤﺎ ﺧﺎﻓﺖ
[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 3751 ، 3/ 75]
اور دوسری جگہ محدث بیھقی تفصیل ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
ﻭاﻟﺬﻱ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻣﻦ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ
[السنن الكبرى للبيهقى : 2/ 225 ،226]
حافظ ابن حجر نے کہا :
ﻭﻗﻮﻟﻪ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮﻩ. ﻣﺪﺭﺝ ﻓﻲ اﻟﺨﺒﺮ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﺑﻴﻨﻪ اﻟﺨﻄﻴﺐ، ﻭاﺗﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ اﻟﺘﺎﺭﻳﺦ، ﻭﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ، ﻭﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻭاﻟﺬﻫﻠﻲ، ﻭاﻟﺨﻄﺎﺑﻲ، ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ
التلخيص الحبير : 1/ 565 ،566]
حافظ ابن ملقن نے کہا:
ﺛﺎﻟﺜﻬﺎ: ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ … ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮﻩ، ﻟﻴﺲ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ ﺳﻴﺪﻧﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ (اﻟﺰﻫﺮﻱ) ﻣﺪﺭﺝ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ؛ ﻟﺬﻟﻚ ﺃﻃﺒﻖ اﻟﺤﻔﺎﻅ ﻋﻠﻴﻪ ﻛﻤﺎ ﺑﻴﻨﻪ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺨﻄﻴﺐ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ اﻟﻔﺼﻞ ﻟﻠﻮﺻﻞ اﻟﻤﺪﺭﺝ ﻓﻲ اﻟﻨﻘﻞ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻓﻲ ﺳﻨﻨﻪ ﺳﻤﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻓﺎﺭﺱ ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﻮﻟﻪ: «ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ» ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ.
(ﻗﺎﻝ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ: ﻭﻛﺬا ﻗﺎﻟﻪ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ «اﻟﺘﺎﺭﻳﺦ» ﻗﺎﻝ: ﻫﺬا اﻟﻜﻼﻡ ﻣﻦ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ) ﻭﻛﺬا ﻗﺎﻟﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺬﻫﻠﻲ ﺷﻴﺦ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻭﺇﻣﺎﻡ ﺃﻫﻞ ﻧﻴﺴﺎﺑﻮﺭ، ﻭاﻟﺨﻄﺎﺑﻲ، ﻭاﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ.
ﻭاﺗﻔﻖ ﻫﺆﻻء ﻛﻠﻬﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻫﺬﻩ اﻟﻠﻔﻈﺔ ﻣﺪﺭﺟﺔ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻭﻫﺬا ﻻ ﺧﻼﻑ ﻓﻴﻪ ﺑﻴﻨﻬﻢ
[البدر المنیر : 3/ 546 ،547]
امام ابن حبان نے کہا:
ﺫﻛﺮ اﻟﺒﻴﺎﻥ ﺑﺄﻥ ﻫﺬا اﻟﻜﻼﻡ اﻷﺧﻴﺮ ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻭاﺗﻌﻆ اﻟﻤﺴﻠﻤﻮﻥ ﺑﺬﻟﻚ، ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻻ ﻣﻦ ﻛﻼﻡ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ
[صحیح ابن حبان قبل الحديث :1851]
اور کہا: ﻭﺃﻣﺎ ﻗﻮﻝ اﻟﺰﻫﺮﻱ: ﻓﺎﻧﺘﻬﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻘﺮاءﺓ؛ ﺃﺭاﺩ ﺑﻪ ﺭﻓﻊ اﻟﺼﻮﺕ ﺧﻠﻒ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ اﺗﺒﺎﻋﺎ ﻣﻨﻬﻢ ﻟﺰﺟﺮﻩ، ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻋﻦ ﺭﻓﻊ اﻟﺼﻮﺕ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺠﻬﺮ ﺑﺎﻟﻘﺮاءﺓ ﻓﻲ ﻗﻮﻟﻪ: “ﻣﺎ ﻟﻲ ﺃﻧﺎﺯﻉ اﻟﻘﺮﺁﻥ
[صحيح ابن حبان بعد الحديث : 1851]

اس توضیح سے واضح ہو گیا کہ یہ “فانتهى الناس” سے آگے کے الفاظ زہری کا کلام ہیں
جو حجت و دلیل نہیں ہیں نہ ہی انہیں حدیث
کا حصہ باور کروا کر پیش کرنا درست ہے۔
احادیث مرفوعہ موقوفہ میں صراحت کے ساتھ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی صراحت موجود ہے اور مقتدی پڑھ چکنے کے بعد خاموش رہیں گے اور امام کی قراءت سنیں گے۔
ورنہ یہ بتائیں کہ ان کا بعد میں آنے والا مقتدی کیسے نماز میں داخل ہوگا اور کیسے وہ نماز شروع کر ے گا ۔۔۔۔۔۔؟؟ جب کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو ۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ