میرا اختلاف: عبادت، تعلیم اور اخلاق — ہم ترتیب کیوں توڑ دیتے ہیں؟

میرا اختلاف اس بات سے ہے کہ ہم بچوں کی تربیت میں عبادت، تعلیم اور اخلاق تینوں کے معاملے میں فطری اور دینی ترتیب کو توڑ دیتے ہیں۔ خاص طور پر دینی گھرانوں میں یہ عام بات ہے کہ سات سال یا اس سے بھی کم عمر بچوں کو نماز کے لیے زبردستی کھڑا کر دیا جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اگر اس عمر میں عملی طور پر نماز نہ کروائی گئی تو بچہ کبھی نماز کا عادی نہیں بنے گا۔ میں دین سے اختلاف نہیں کرتی، میں دین کے نام پر کی جانے والی اس جلدبازی سے اختلاف کرتی ہوں جو بچے کے دل اور دماغ کی تیاری سے پہلے اس کے جسم کو پابند بنانا چاہتی ہے۔
کیا حدیث ہمیں زبردستی سکھاتی ہے یا حکمت؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں اس پر سختی کرو۔ یہ حدیث صرف ایک حکم نہیں بلکہ تربیت کا پورا منہج ہے۔ سات اور دس کے درمیان کا فرق محض عددی نہیں بلکہ فطری، ذہنی اور سائنسی فرق ہے۔ سات سال کی عمر کہنا، سمجھانا، یاد دلانا اور رغبت دلانے کی ہے جبکہ دس سال کے بعد جا کر ذمہ داری اور پابندی کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر سات سال میں ہی زبردستی مطلوب ہوتی تو دس سال کا الگ ذکر ہی باقی نہ رہتا۔
سات سے دس سال کے درمیان بچہ آخر کیا کر رہا ہوتا ہے؟
اکثر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر سات سال میں نماز نہیں کروائیں گے تو سات سے دس سال کے درمیان بچہ کیا کرے گا۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس دوران نافرمان نہیں بلکہ بن رہا ہوتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے، سن رہا ہوتا ہے، جذب کر رہا ہوتا ہے اور دل میں بات بٹھا رہا ہوتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں بچہ اپنے سمع اور بصر کے ذریعے دین اور دنیا دونوں کو سمجھتا ہے اور اندر ہی اندر اپنی شخصیت کی بنیاد رکھتا ہے۔

سائنس کیا کہتی ہے اور ہم کیا چاہتے ہیں؟
جدید نیوروسائنس یہ بتاتی ہے کہ بچے کے دماغ کا وہ حصہ جو فیصلے کرنے، خود پر قابو رکھنے، نظم و ضبط اور مستقل مزاجی سے متعلق ہے، یعنی پری فرنٹل کارٹیکس، تقریباً نو سے دس سال کی عمر میں جا کر بہتر طور پر فعال ہوتا ہے۔ سات سال کا بچہ بات سمجھ سکتا ہے مگر مستقل پابندی اس کے لیے ذہنی طور پر ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے نماز میں توجہ نہ ہونا، بار بار اٹھ بیٹھ جانا یا اخلاقی ضبط میں کمزوری نافرمانی نہیں بلکہ دماغی ناپختگی ہے۔ نبی ﷺ نے جو تربیتی ترتیب دی وہ عین اسی فطری اور سائنسی حقیقت کے مطابق ہے۔
دنیاوی تعلیم میں ہم یہی اصول کیوں مانتے ہیں؟
دنیاوی تعلیم میں یہی ترتیب ہمیں کھلے طور پر نظر آتی ہے۔ مغرب میں اور عرب کے کئی ممالک میں بچہ سات سال تک زبان سنتا ہے، کہانیوں سے مانوس ہوتا ہے، کتاب کو دوست بناتا ہے اور استاد و ماحول سے تعلق قائم کرتا ہے۔ پہلے دکھایا جاتا ہے، سنوایا جاتا ہے اور انسیت پیدا کی جاتی ہے، پھر آہستہ آہستہ لکھنا، پڑھنا، قواعد اور نظم و ضبط سکھایا جاتا ہے۔ کوئی سمجھدار تعلیمی نظام یہ نہیں کہتا کہ بچے نے زبان سن لی ہے تو فوراً لکھ کر دکھائے، کیونکہ تعلیم جانتی ہے کہ انسیت کے بغیر علم بوجھ بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دنیاوی تعلیم میں ہم اس ترتیب کو مانتے ہیں تو دینی تعلیم اور عبادت میں ہم اسے کیوں توڑ دیتے ہیں۔
اخلاقی تربیت میں ہم زیادہ سخت کیوں ہو جاتے ہیں؟
یہی غلطی ہم اخلاق کے معاملے میں بھی دہراتے ہیں۔ ہم سات یا آٹھ سال کے بچے سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بدتمیزی نہ کرے، فوراً بات مانے، غصے پر قابو رکھے اور اپنی زبان پر مکمل کنٹرول رکھے، اور جب وہ ایسا نہیں کر پاتا تو ہم اسے بدتمیز، ضدی یا نافرمان کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اخلاقی ضبط بھی اسی دماغی حصے سے جڑا ہے جو دس سال کے قریب جا کر پختہ ہوتا ہے۔ بچے کا غصے میں بول پڑنا، بات نہ ماننا یا جذبات میں بہہ جانا کردار کی خرابی نہیں بلکہ عصبی ناپختگی ہے، اسی لیے اخلاق کے معاملے میں بھی دس سال تک کہنا، سمجھانا اور نرمی سے درست کرنا ہی اصل منہج ہے۔
صحابہؓ کی مثالیں: ہم پورا دین کیوں نہیں لیتے؟
جب میں یہ بات رکھتی ہوں تو بعض لوگ صحابہؓ و صحابیاتؓ کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں صحابیہ بچوں کو مارتی تھیں، فلاں صحابی بچوں سے روزے رکھواتے تھے یا فلاں کے بچے نے کم عمری میں حفظ کر لیا تھا۔ میں ان مثالوں کا انکار نہیں کرتی، مگر میرا سوال یہ ہے کہ ہم صحابہؓ کو ٹکڑوں میں کیوں لیتے ہیں۔ وہ عبادت میں سنجیدہ تھے تو محبت میں بھی بے مثال تھے، وہ حدود قائم کرتے تھے تو تعلق بھی مضبوط رکھتے تھے، وہ سختی کرتے تھے تو درگزر بھی جانتے تھے۔ ان کی سختی تعلق کے بغیر نہیں تھی، اور یہی پہلو ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
تربیت کا پہلا عشرہ: مٹی نرم کرنے کا وقت
میری نظر میں تربیت کا پہلا عشرہ مٹی نرم کرنے کا وقت ہے، چاہے بات نماز کی ہو، تعلیم کی ہو یا اخلاق کی۔ پہلے تعلق، محبت، انسیت اور اعتماد پیدا کیا جاتا ہے، پھر اس زمین میں ذمہ داری اور پابندی کا بیج بویا جاتا ہے۔ سخت زمین میں بیج ڈال دیا جائے تو وہ یا تو اگتا نہیں یا کمزور رہتا ہے۔
کیا کوشش کافی ہے؟
ہمیں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ تربیت ایک نہایت مشکل کام ہے اور نتیجہ ہمارے اختیار میں نہیں۔ نوحؑ کا بیٹا اور ابراہیمؑ کا والد ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم پر صرف کوشش فرض ہے۔
میرا اختلاف، ایک مکمل بات
میرا اختلاف اس بات سے نہیں کہ بچوں کو نماز، علم اور اخلاق نہ سکھائے جائیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ ہم فطرت، سائنس اور دین کی بتائی ہوئی ترتیب کو توڑ دیتے ہیں اور پھر بچے کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ عبادت ہو یا تعلیم یا اخلاق، پہلے کہنا، سمجھانا اور مانوس کرنا ہے، پھر ذمہ داری ڈالنی ہے۔ ہم بیج بوئیں، نرمی اور صبر سے پانی دیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔
یعنی
خاص اس پرفتن دور میں ہمیں اپنے اخلاق پر کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں دینی لوگ اور مدارس کو بدنام کرکے علماء سے متنفر کیا جارہاہے ۔۔۔جو علم اٹھ جانے کی نشانی ہے.
تعلیم دینے کی ترتیب میں اولین فریضہ نرمی محبت ہے نہ کہ بہت بڑا سلیبس بچے کا تیار کرنا کہ عقیدہ کرلے حفظ کرلے ترجمہ کرلے سکول کرلے۔۔نماز کا پابند ہو ۔۔ ۔۔نجانے کیا کیا کچھ دس سال سے پہلے کے لئے تیار کرتے مکمل کرواتے ہیں ۔۔نہ کرے تو دشمنی مول لیتے ہیں حالانکہ اس عمر میں ہمارا فرض محبت تعلق سے عملی نمونہ بننا کہ وہ علم سے محبت کرنے اور آپ سے ۔۔۔
ہم اپنے فرائض پر توجہ دیں گے تو اللہ برکت ڈال دے گا ورنہ سختی عیب دار کر دیتی ہے جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔۔
یارب ہمیں اپنی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی توفیق دے🤲🏻
ادخلوا فى السلم كافة
🖋️*عطيه محمدى