سوال
ایک آدمی نے تقریبا گیارہ ماہ کے معاہدےپر جگہ فروخت کی، یعنی دوسری پارٹی گیارہ ماہ میں رقم ادا کرے گی۔ اگر پوری رقم ادا نہ کی گئی تومعاہدہ منسوخ ہوجائےگا۔معاہدے کی مدت تک خریدار پارٹی نے40 فیصد اداکیا۔ معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعدفروخت کرنے والے کی شرافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،تقریبا 6ماہ میں 10فیصد رقم ادا کی ۔پھر وہ پارٹی جو بروکرکارول ادا کررہی تھی، نے دباؤ ڈال کرمزید ایک ماہ کی مدت کا کہہ کرکچھ حصے کی رجسٹری کروا دی ۔رجسٹری کروانے کےوقت بیچنے والے کی اہلیہ اوربچے اس بات پر متفق نہیں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ غیر شرعی کام ہے۔رجسٹری نا کریں۔مگر کرونا کی وجہ سےان لوگوں نے عدالت کے پیپرگھرلا کریہ کہہ کر کہ ایک بندے نے بیرون ملک جانا ہے،دستخط کروا لیے۔اب صورت حال یہ ہے،کہ وہ اپنے ایک ماہ کے معاہدے کو بھی پورا نہیں کرسکے۔جھوٹے وعدوں کے ساتھ تھوڑی تھوڑی رقم اداکر کے مزید6 ماہ گزار دیے۔یعنی ایک ماہ کی مدت ختم ہونے کےسوا سال بعد تک جھوٹے وعدوں کےساتھ تھوڑی تھوڑی رقم ادا کرکے مزید47 فیصد ادا کردیا۔جھوٹے وعدوں کی وجہ سےبیچنے والے کا تاثر کئی پارٹیوں کےسامنے خراب ہوا۔اب صورت حال یہ ہے کہ بیچنے والے کے بیٹے جو ملک سے باہر تھےوہ آئےہیں انہوں نےتحقیق کی تو پتا چلا کہ خریدار نےتمام کی تمام جگہ بمع نفع بیچ کر بھی پہلے بیچنے والے کو رقم ادا نہیں کی۔او ریہ بھی پتا چلا کہ انہوں نے جب رجسٹری کروائی وہ دو تہائی حصے کی کروائی جبکہ رقم دو تہائی حصے سے کم ادا کی ہے۔اب بیچنے والے کی اہلیہ اوراولاد کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہم سےزیادتی کی ہے۔اس لیے باقی حصے کی رجسٹری نہ کریں۔ اس مسئلہ میں ایک صورت یہ ہے کہ باقی حصے کی رجسٹری کے لیے ان سے نئے ریٹ کے مطابق دوبارہ معاہدہ کر لیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ نئے معاہدے میں باقی حصے کی موجودہ قیمت لگا کر اصل موجودہ قیمت میں کچھ نسبت سے ڈسکاؤنٹ کر کے آپس میں طے کر لیں۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ جس طرح انہوں نےمعاہدہ ختم ہونے کے بعدرقم ادا کی ہے۔اس قیمت کے حساب سے جگہ کی قیمت لگا کرٹوٹل رقم کا حساب لگا لیا جائے۔قرآن حدیث کی روشنی میں ہمیں بتائیں کہ کونسی صورت بہتر ہے۔یاکوئی اور صورت جس سےہمارے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اللہ تعالی قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے:
“وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا “. [ الاسراء : 34]
’اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے‘۔
لہذا معاہدہ کرکے، اسے پورا نہ کرنا، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
البتہ اس میں بیچنے والوں کو بھی قصوروار سمجھا جائے گا۔با وجودبار بار دھوکہ کھانے کے پھر بھی نہیں سمجھے۔ حالانکہ رسول کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
«لَا يُلْدَغُ المُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ»[بخاري:6133]
’مومن کو ایک سوراخ سے دوبارہ ڈنگ نہیں لگ سکتا‘۔
پھر بعض بروکر / ڈیلر/ كميشن ایجنٹ ایسے ہوتے ہیں کہ دھوکا دہی، مکاری ،چالاکی ان کا دین ایمان ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کو صرف اپنے کمیشن سے غرض ہوتی ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
یعنی ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کون کس حالت میں ہے، ان کو صرف اپنے کمیشن سے غرض ہوتی ہے۔ لہذا زمین مالکان کو بذاتِ خود احتیاط اور توجہ کرنی چاہیے تھی۔
ہم یہ سمجھتے ہیں اب جو باقی زمین کی رجسٹری رہتی ہے یہ نہ کرائی جائے ۔اور وعدہ منسوخ سمجھا جائے۔ کیونکہ طرفِ ثانی نے بذاتِ خود معاہدہ شکنی کی ابتدا کی ہے۔
جو زمین پڑی ہے، از سر نو اس کی تعیین کی جائے، اور قیمت لگائی جائے۔ پھر موجودہ ریٹ کے مطابق نقد سودا کریں۔کیونکہ بار بار جو ان کو نقصان ہوا ہے ، وه نقد سودا نہ ہونے کے سبب ہی تھا۔
اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنے ، ایک دوسرے کی ضرورت کو سمجھنے ،اور باہمی ہمدردی اور ایثار سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ