سوال (3243)
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ، فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ، فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلُ. قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ ، وَقَالَ : ” أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ ” قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ ؟ قَالَ: ” لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا” [سنن ابي داؤد : 2645]
معزز علماء کرام و شیوخ عظام اس روایت کی وضاحت درکار ہے؟
جواب
مشرکوں کے درمیان سکونت اختیار کرنا یہ معیوب عمل ہے، اس میں بہت سے نقائص ہیں، لیکن یہ روایت سندا ثابت نہیں ہے،
حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ: حَدَّثَنَا، أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ،عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَرِيَّةً إِلَی خَثْعَمٍ، فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْہُمْ بِالسُّجُودِ، فَأَسْرَعَ فِيہِمُ الْقَتْلَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ، فَأَمَرَ لَہُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ: أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ، يُقِيمُ بَيْنَ أَظْہُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللہِ! لِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَی نَارَاہُمَا.[سنن ابي داؤد : 2645]
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خشعم کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی تو ان میں سے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے پناہ حاصل کرنی چاہی لیکن (مجاہدین نے ان کو) جلدی جلدی قتل کر ڈالا۔نبی کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا۔اور فرمایا ’’میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے اندر مقیم ہو۔‘‘ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی آگ دکھائی نہ دے (آبادی اس قدر دور دور ہونی چاہیئے۔)
أبو معاویۃ الضریر مدلس ہیں، اور عن سے روایت کررہے ہیں سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
[سندہ، ضعیف]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ