سوال (2169)

إذا دَعا أحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمِ المَسْأَلَة ولا يَقُولَنَّ: اللَّهُمَّ إنْ شِئْتَ فأعْطِنِي؛ فإنَّه لا مُسْتَكْرِهَ له. [صحیح مسلم: 2679]

اس روایت کی وضاحت مطلوب ہے؟

جواب

یعنی باری تعالی سے جب دعا کرو تو کامل یقین اور اس حسن ظن کے ساتھ کرو کہ رب العالمین ہی دعاؤں کو سننے اور قبول فرمانے والے ہیں، یعنی الفاظ ایسے بولو کے جس میں مایوسی اور باری تعالی کی شان و عظمت کے خلاف کوئی لفظ و کلمہ نہ ہو، جیسے کہنا اے الله اگر آپ چاہیں تو مجھے نواز دیں، اگر آپ چاہیں تو مجھے عطا فرما دیں، کیونکہ الله تعالى کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں، حافظ نووی رحمه الله تعالی نے اس حدیث مبارک پر یہ باب قائم کیا ہے۔

“بَابُ الْعَزْمِ بِالدُّعَاءِ وَلَا يَقُلْ إِنْ شِئْتَ”

عزم اور پختگی کے ساتھ دعا کرنا اور وہ یوں نہ کہے: (اے اللہ!) اگر آپ چاہیں۔
امام بخاری رحمه الله تعالى نے یوں باب قائم کیا ہے:

“بَابُ لِيَعْزِمِ المَسْأَلَةَ، فَإِنَّهُ لاَ مُكْرِهَ لَهُ”

یعنی اپنا مقصد اور اپنی مراد قطعی طور سے طلب کرے اس لئے کہ الله تعالی پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔
اس حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ الله تعالى سے قبولیت دعا کا کامل یقین رکھتے ہوئے دعا کرے اور مانگے کہ میں جو مانگ رہا ہوں، وہ الله تعالى پوری طرح سے عطا فرمانے پر قادر ہیں اور یہ کہ الله تعالى وہ چیز ضرور عطاء فرمائیں گے یاد رکھیں شک اور مایوسی و تذبذب کے ساتھ مانگی گئی دعا کم ہی درجہ قبولیت کو پنہچتی ہے، کیونکہ الله تعالى بندے کے گمان کے مطابق ہی اس کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
حدیث قدسی ہے۔

“ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺃﻧﺎ ﻋﻨﺪ ﻇﻦ ﻋﺒﺪﻱ ﺑﻲ، ﻭﺃﻧﺎ ﻣﻌﻪ ﺇﺫا ﺩﻋﺎﻧﻲ”

بے شک الله عزوجل فرماتے ہیں:
میں اپنے بندے کے ساتھ ویسے پیش آتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ پورے یقین کے ساتھ مجھے پکارتا ہے۔
[مسند أحمد بن حنبل: 9749 سنده صحيح واللفظ له، صحيح مسلم: 2675]
یہ حدیث قدسی کئی طرق سے اختصار و تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔
ایک اور حدیث قدسی ملاحظہ فرمائیں:

“ﻗﺎﻝ ﻭاﺛﻠﺔ: ﺃﺑﺸﺮ ﺇﻧﻲ ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ: ﺃﻧﺎ ﻋﻨﺪ ﻇﻦ ﻋﺒﺪﻱ ﺑﻲ، فليظن ﺑﻲ ﻣﺎ ﺷﺎء”

سیدنا واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ نے کہا خوش ہو جاؤ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا الله عزوجل فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے ساتھ ویسے پیش آتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھتا ہے پس وہ میرے بارے میں جیسا چاہے گمان رکھے ۔
[مسند أحمد بن حنبل: 16016 سنده صحيح]
حدیث قدسی کے الفاظ مبارک یوں بھی ملتے ہیں:

ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﻼ ﻳﻘﻮﻝ ﺃﻧﺎ ﻋﻨﺪ ﻇﻦ ﻋﺒﺪﻱ ﺑﻲ ﺇﻥ ﻇﻦ ﺧﻴﺮا ﻓﻠﻪ ﻭﺇﻥ ﻇﻦ ﺷﺮا ﻓﻠﻪ

بے شک الله جل و علا فرماتے ہیں: میں اپنے کے ساتھ ویسے پیش آتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھتا ہے اب اگر وہ اچھا گمان رکھتا ہے تو اس کے لیے ہی بہتر اور خیر کا سبب ہے اور اگر برا گمان رکھتا ہے تو برا بھی اسی کے لیے ہے۔
[صحیح ابن حبان: 639 سنده حسن لذاته لأجل عمرو بن الحارث و هو صدوق مستقيم الحديث]
سائل سے خاص طور پر گزارش ہے قرآن کریم میں انبیاء کرام علیھم السلام اور صلحا ءاہل ایمان کی دعائیں موجود ہیں ان پر غور کریں کہ وہ کس قدر ایمان و یقین کی مضبوطی اور کمال حسن ظن کے ساتھ رب العالمین سے التجائیں اور فریادیں کیا کرتے تھے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا زکریا علیہ السلام، سیدنا ایوب علیہ السلام، سیدنا یعقوب علیہ السلام و دیگر انبیاء کرام علیھم السلام کی خوبصورت دعائیں ملاحظہ فرمائیں تو حق دعا شان رب العالمین معلوم ہو جائے گی۔ إن شاءالله الرحمن۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ