سوال (4992)
اس حدیث کی وضاحت درکار ہے؟
عَنْ أَبِي ذَرٍّ مَرفُوعاً: إِنَّكُمْ اليَوم فِي زَمَانٍ كَثِيرٌ عُلَمَاؤُهُ، قَلِيلٌ خُطَبَاؤُهُ مَنْ تَرَكَ عُشر مَا يعْرف فَقَد هَوَى وَيَأتِي مِنْ بَعدُ زَمَانٌ كَثِيرٌ خُطَبَاؤُهُ قَلِيلٌ عُلَمَاؤُهُ مَنِ اسْتَمْسَكَ بِعُشْرٍ مَا يَعْرِفُ فَقَد نَجَا.
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہےکہ: تم آج اس دور میں ہو جس میں علما ء زیادہ ہیں اور خطباء کم، جس شخص نے اپنے علم کے مطابق دسواں حصہ بھی عمل چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوگا، اور اس کے بعد ایسا دور آئے گا جس میں خطباء زیادہ ہوں گے اور علماء کم، جس شخص نے اپنے علم کے مطابق دسواں حصہ بھی عمل کیا وہ نجات پا جائے گا۔[سلسة الصحیحة: 2570]
جواب
حدیث میں دین کے دو مختلف ادوار کے اعتبار سے بات کی گئی ہے، ایک وہ ابتدائی وقت تھا جب دینِ اسلام پوری دنیا میں پھیل چکا تھا، اور چاہنے والے، جان نثار اور اخلاص کے پیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی جماعت موجود تھی۔ وہ دین پر اس قدر شوق سے عمل کرتے تھے کہ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کو روکنا پڑتا، اور کہنا پڑتا: “تم میرے جیسے نہیں ہو، میرے عمل کا مقابلہ کیوں کرتے ہو؟ “، اس دور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطالبہ یہ تھا کہ پورے دین پر عمل کیا جائے، اور اگر دس فیصد بھی چھوڑ دیا جائے تو یہ ناقابلِ قبول ہوگا۔ لیکن جب وقت بدلنے لگا، علم کم ہونے لگا، بد عملی اور گناہوں کا دور دورہ ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے، اس نے نرمی فرما دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اُمت کو خبر دی۔ کہ علم اٹھا لیا جائے گا، فتنوں کا ظہور ہوگا، بد کاری عام ہوگی، تو اللہ نے اپنے فضل سے آسانی عطا کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا گیا کہ اگر کوئی شخص دین کے علم کے مطابق صرف دس فیصد بھی عمل کر لے گا، تو وہ بھی قبول ہوگا۔ یہ آخری زمانے کی اُمت کے لیے خوشخبری ہے، دیگر روایات میں بھی یہ بشارت موجود ہے کہ ایک شخص جب عمل کرے گا، تو اسے پچاس صحابہ کے برابر اجر ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ خصوصاً آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رحمت و انعام کی مستحق ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حدیث أبو ذر غفاری رضی الله عنہ معلول ومنقطع ہے نیچے دئیے گئے حوالہ کو دیکھا جا سکتا ہے البتہ ہر علم وحی رکھنے والے عالم دین کو باعمل ہونا چاہیے اور اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے ہے کہ اس کی بہت شدید وعید بیان ہوئی ہے اور مذمت بھی بہت زیادہ بیان ہوئی ہے، جہاں تک اس روایت کی وضاحت کا مسئلہ ہے تو جب اس متن سے یہ روایت ثابت نہیں تو اس کی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ یہ قدرے الفاظ کے تغیر کے ساتھ مختلف طرق واسانید سے ابن مسعود رضی الله عنہ سے بیان ہوئی ہے.
ملاحظہ کریں:
عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺣﻮﺹ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ، ﻛﺜﻴﺮ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ، ﻳﻄﻴﻠﻮﻥ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﻳﻘﺼﺮﻭﻥ اﻟﺨﻄﺒﺔ، ﻭﺇﻧﻪ ﺳﻴﺄﺗﻲ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺯﻣﺎﻥ ﻛﺜﻴﺮ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ، ﻗﻠﻴﻞ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ، ﻳﻄﻴﻠﻮﻥ اﻟﺨﻄﺒﺔ، ﻭﻳﺆﺧﺮﻭﻥ اﻟﺼﻼﺓ، ﺣﺘﻰ ﻳﻘﺎﻝ: ﻫﺬا ﺷﺮﻕ اﻟﻤﻮﺗﻰ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ ﻟﻪ: ﻭﻣﺎ ﺷﺮﻕ اﻟﻤﻮﺗﻰ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا اﺻﻔﺮﺕ اﻟﺸﻤﺲ ﺟﺪا، ﻓﻤﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺫﻟﻚ ﻓﻠﻴﺼﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﻮﻗﺘﻬﺎ، ﻓﺈﻥ اﺣﺘﺒﺲ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﻣﻌﻬﻢ، ﻭﻟﻴﺠﻌﻞ ﺻﻼﺗﻪ ﻭﺣﺪﻩ اﻟﻔﺮﻳﻀﺔ، ﻭﻟﻴﺠﻌﻞ ﺻﻼﺗﻪ ﻣﻌﻬﻢ ﺗﻄﻮﻋﺎ
مصنف عبد الرزاق:(3738)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ( بن إبراهيم)، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺣﻮﺹ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻛﺜﻴﺮ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻳﻄﻴﻠﻮﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﻳﻘﺼﺮﻭﻥ اﻟﺨﻄﺒﺔ ﻭﺳﻴﺄﺗﻲ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺯﻣﺎﻥ ﻛﺜﻴﺮ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻗﻠﻴﻞ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻳﻄﻴﻠﻮﻥ اﻟﺨﻄﺒﺔ ﻭﻳﺆﺧﺮﻭﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﺣﺘﻰ ﻳﻘﺎﻝ ﻫﺬا ﺷﺮﻕ اﻟﻤﻮﺗﻰ ﻓﻤﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺫﻟﻚ ﻓﻠﻴﺼﻠﻬﺎ ﻟﻮﻗﺘﻬﺎ ﻓﺈﻥ اﺣﺘﺒﺲ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﻣﻌﻬﻢ ﻭﻳﺠﻌﻞ ﺻﻼﺗﻪ ﻭﺣﺪﻩ اﻟﻔﺮﻳﻀﺔ ﻭﺻﻼﺗﻪ ﻣﻌﻬﻢ ﺗﻄﻮﻋﺎ، تعظيم قدر الصلاة للمروزي:(1038)
ابو اسحاق مدلس کے سماع کی صراحت نہیں ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ اﻟﻤﺎﺯﻧﻲ، ﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻣﺮﺯﻭﻕ، ﺃﻧﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ اﻷﺣﻮﺹ، ﻭﺃﺑﺎ اﻟﻜﻨﺪﻱ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻴﻪ ﻃﻮﻳﻠﺔ ﻭاﻟﺨﻄﺒﺔ ﻓﻴﻪ ﻗﺼﻴﺮﺓ، ﻭﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻛﺜﻴﺮ ﻭﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻗﻠﻴﻞ، ﻭﺳﻴﺄﺗﻲ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺯﻣﺎﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻴﻪ ﻗﺼﻴﺮﺓ ﻭاﻟﺨﻄﺒﺔ ﻓﻴﻪ ﻃﻮﻳﻠﺔ، ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻛﺜﻴﺮ ﻭﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻗﻠﻴﻞ ﻳﺄﺧﺮﻭﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﺻﻼﺓ اﻟﻌﺸﺎء ﺇﻟﻰ ﺷﺮﻕ اﻟﻤﻮﺗﻰ ﻓﻤﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺫﻟﻚ ﻣﻨﻜﻢ ﻓﻠﻴﺼﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﻮﻗﺘﻬﺎ، ﻭﻟﻴﺠﻌﻠﻬﺎ ﻣﻌﻬﻢ ﺗﻄﻮﻋﺎ، ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻳﻐﺒﻂ اﻟﺮﺟﻞ ﻓﻴﻪ ﻋﻠﻰ ﻛﺜﺮﺓ ﻣﺎﻟﻪ ﻭﻛﺜﺮﺓ ﻋﻴﺎﻟﻪ، ﻭﺳﻴﺄﺗﻲ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺯﻣﺎﻥ ﻳﻐﺒﻂ اﻟﺮﺟﻞ ﻓﻴﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻠﺔ ﻋﻴﺎﻟﻪ ﻭﺧﻔﺔ ﺣﺎﺩﻩ، ﻣﺎ ﺃﺩﻉ ﺑﻌﺪﻱ ﻓﻲ ﺃﻫﻠﻲ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻲ ﻣﻮﺗﺎ ﻣﻨﻬﻢ، ﻭﻻ ﺃﻫﻞ ﺑﻴﺖ ﻣﻦ اﻟﺠﻌﻼﻥ، ﻭﺇﻧﻲ ﻷﺣﺒﻬﻢ ﻛﻤﺎ ﻳﺤﺒﻮﻥ ﺃﻫﻠﻴﻜﻢ،
المعجم الكبير للطبرانى:(8567)
اس سند میں ان سے شعبہ روایت کر رہے مگر امام طبرانی کے شیخ محمد بن حبان بن الأزهر ضعیف راوی ہے اور یہ المازنی نہیں ہے المازنی تو متقدم ہیں اس سے،خطیب بغدادی نے پہلے محمد بن حبان المازنی کا ذکر کیا پھر اس راوی کا ملاحظہ فرمائیں۔
ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﺑﻦ اﻷﺯﻫﺮ، ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﻌﺒﺪﻱ
ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﺼﺮﺓ، ﻧﺰﻝ ﺑﻐﺪاﺩ، ﻭﺣﺪﺙ ﺑﻬﺎ ﻋﻦ: ﺃﺑﻲ ﻋﺎﺻﻢ اﻟﻨﺒﻴﻞ، ﻭﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻣﺮﺯﻭﻕ، ﻭﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ، ﻭﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻧﻜﺮﺓ، ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ: اﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ اﻟﺠﻌﺎﺑﻲ، ﻭﻏﻴﺮ ﻭاﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﻤﺘﺄﺧﺮﻳﻦ، تلخیص المتشابہ فی الرسم:1/ 109
مزید ترجمہ دیکھیے تاریخ بغداد،الاکمال لابن ماکولا،سیر أعلام النبلاء،تاریخ الاسلام میں
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺣﻮﺹ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻛﺜﻴﺮ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻳﻄﻴﻠﻮﻥ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﻳﻘﺼﺮﻭﻥ اﻟﺨﻄﺒﺔ، ﻭﺇﻧﻪ ﺳﻴﺄﺗﻲ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺯﻣﺎﻥ ﻛﺜﻴﺮ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻗﻠﻴﻞ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻳﻄﻴﻠﻮﻥ اﻟﺨﻄﺒﺔ، ﻭﻳﺆﺧﺮﻭﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﺣﺘﻰ ﻳﻘﺎﻝ ﻫﺬا ﺷﺮﻕ اﻟﻤﻮﺗﻰ ﻗﻠﺖ ﻟﻪ: ﻣﺎ ﺷﺮﻕ اﻟﻤﻮﺗﻰ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا اﺻﻔﺮﺕ اﻟﺸﻤﺲ ﺟﺪا، ﻓﻤﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺫﻟﻚ ﻣﻨﻜﻢ ﻓﻠﻴﺼﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻟﻮﻗﺘﻬﺎ، ﻓﺈﻥ اﺣﺘﺒﺲ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﻣﻌﻬﻢ ﻭﻟﻴﺠﻌﻞ ﺻﻼﺗﻪ ﻭﺣﺪﻩ اﻟﻔﺮﻳﻀﺔ ﻭﺻﻼﺗﻪ ﻣﻌﻬﻢ ﺗﻄﻮﻋﺎ، المعجم الكبير للطبرانى:(9496)
ایک اور طریق سے مستدرک حاکم:(8487) میں
اس میں تفصیل ہے جسے بیان کرنا مقصد نہیں ہے کیونکہ تفصیلی دراسہ کریں تو بہت لمبی بات ہو جائے گی
البتہ یہ سیدنا عبدالله رضی الله عنہ سے موقوفا ثابت ہے صحیح سند کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺧﻴﺜﻤﺔ ﺛﻨﺎ ﺟﺮﻳﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﺼﻬﺒﺎﻧﻲ ﻋﻦ ﻛﻤﻴﻞ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻛﺜﻴﺮ ﻋﻠﻤﺎﺅﻩ ﻗﻠﻴﻞ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ، ﻭﺇﻥ ﺑﻌﺪﻛﻢ ﺯﻣﺎﻧﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ ﻭاﻟﻌﻠﻤﺎء ﻓﻴﻪ ﻗﻠﻴﻞ
العلم لزهير بن حرب:(109) سنده صحيح
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺳﻮﺩ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﺣﺼﻴﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ: ﻛﺜﻴﺮ ﻓﻘﻬﺎﺅﻩ، ﻗﻠﻴﻞ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ، ﻗﻠﻴﻞ ﺳﺆاﻟﻪ، ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻌﻄﻮﻩ، اﻟﻌﻤﻞ ﻓﻴﻪ ﻗﺎﺋﺪ ﻟﻠﻬﻮﻯ. ﻭﺳﻴﺄﺗﻲ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻛﻢ ﺯﻣﺎﻥ: ﻗﻠﻴﻞ ﻓﻘﻬﺎﺅﻩ، ﻛﺜﻴﺮ ﺧﻄﺒﺎﺅﻩ، ﻛﺜﻴﺮ ﺳﺆاﻟﻪ، ﻗﻠﻴﻞ ﻣﻌﻄﻮﻩ، اﻟﻬﻮﻯ ﻓﻴﻪ ﻗﺎﺋﺪ ﻟﻠﻌﻤﻞ، اﻋﻠﻤﻮا ﺃﻥ ﺣﺴﻦ اﻟﻬﺪﻱ، ﻓﻲ ﺁﺧﺮ اﻟﺰﻣﺎﻥ، ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﺑﻌﺾ اﻟﻌﻤﻞ، الأدب المفرد:(789) سنده حسن
ہمارے علم کے مطابق اس باب کی مرفوع روایات ضعیف ہیں مثلا حدیث أبو ذر غفاری رضی الله عنہ دیکھیے مسند أحمد/ موسوعہ حدیثییہ:(21372) اور اس کی تعلیق، التاريخ الكبير للبخاري:2/ 374 وغیرہ۔
البتہ یہ موقوفا ثابت ہے اور مرفوع کے حکم میں ہے وجہ یہ ہے حکما مرفوع کہنے کی کہ ایسی بات جس کا تعلق امور غیب بشارات، وعذاب سے ہو اسے صحابی رسول اپنی ذاتی راے واجتہاد سے بیان نہیں کر سکتا ہے۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ