سوال (4592)

“إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ”

کیا یہ روایت صحیح ہے۔

جواب

جی ہاں، یہ روایت صحیح ہے، اس روایت کو امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔

“إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْہَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِہِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ” [سنن الترمذی: 2682] قال البانی: صحیح

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ

سائل: محترم سند مطلوب ہے؟

جواب: “حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ”

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ روایت سندا ضعیف ہے معنا صحیح ہے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: معنا کیسے صحیح ہے؟ وضاحت کریں۔

جواب: معنی اس لئے صحیح ہے کہ نبوت ورسالت کا دروازے بند ہو چکا ہے تو لوگوں کی اصلاح کا اور ان تک رب العالمین کا پیغام حق پہنچانے کا جو مشن اور کام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ذمہ تھا وہ اس امت کے ثقہ صحیح العقیدہ باعمل علماء کرام کے ذمہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے منہج کے مطابق لوگوں تک پیغام رب العالمین،پیغام توحید کو پہنچائیں اور ان کی اصلاح کریں یہی وجہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور امامت کے فرائض آج علماء کرام ہی نبھا رہے ہیں۔ اس طرح سے اس روایت کا معنی بالکل درست اور صحیح ہے۔

والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: قیس بن کثیر پر ابن حجر رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: جی یہ راوی ثقہ نہیں ہے۔

امام العلل دارقطنی نے کہا:

ﻭﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺭﺟﺎء ﻭﻣﻦ ﻓﻮﻗﻪ ﺇﻟﻰ ﺃﺑﻲ اﻟﺪﺭﺩاء ﺿﻌﻔﺎء، ﻭﻻ ﻳﺜﺒﺖ

العلل للدارقطنی:6/ 216(1083)

معلوم ہوا امام دارقطنی کے نزدیک کثیر بن قیس وغیرہ راوی ضعفاء میں سے ہیں۔

یہ روایت امام دارقطنی کے نزدیک ثابت نہیں ہے۔

دیکھیے یہی مقام

یہ روایت امام بخاری کے نزدیک معلول ہے

التاریخ الکبیر للبخاری :8/ 337

امام بزار نے کہا:

ﺩاﻭﺩ ﺑﻦ ﺟﻤﻴﻞ ﻭﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﻗﻴﺲ ﻻ ﻧﻌﻠﻤﻬﻤﺎ ﻣﻌﺮﻭﻓﻴﻦ ﻓﻲ ﻏﻴﺮ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ

مسند بزار: (4145)

ابن القطان الفاسی نے کہا:

ﻭﺯﻳﺎﺩﺓ ﺇﻟﻰ ﻫﺬا اﺿﻄﺮاﺏ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺭﺟﺎء ﻓﻴﻪ، ﻓﻌﻨﺪﻩ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺛﻼﺛﺔ ﺃﻗﻮاﻝ:۔۔۔ ﻭاﻟﻤﺘﺤﺼﻞ ﻣﻦ ﻋﻠﺔ اﻟﺨﺒﺮ، ﻫﻮ اﻟﺠﻬﻞ ﺑﺤﺎﻝ ﺭاﻭﻳﻴﻦ ﻣﻦ ﺭﻭاﺗﻪ، ﻭاﻻﺿﻄﺮاﺏ ﻓﻴﻪ ﻣﻤﻦ ﻟﻢ ﺗﺜﺒﺖ ﻋﺪاﻟﺘﻪ،

بيان الوهم والإيهام:4/ 28 ،29

حافظ ذہبی نے داود بن جمیل راوی کے ترجمہ میں کہا:

ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻣﻀﻄﺮﺏ.

ﻭﺿﻌﻔﻪ اﻷﺯﺩﻱ.

ﻭﺃﻣﺎ اﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﺬﻛﺮﻩ ﻓﻲ اﻟﺜﻘﺎﺕ.

ﻭﺩاﻭﺩ ﻻ ﻳﻌﺮﻑ ﻛﺸﻴﺨﻪ.

ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻞ: ﻋﺎﺻﻢ ﻭﻣﻦ ﻓﻮﻗﻪ ﺿﻌﻔﺎء.

ﻭﻻ ﻳﺼﺢ

میزان الاعتدال: (2599)

مزید دیکھیے اکمال تھذیب الکمال: 4/ 243، 244

ابن حبان کے الثقات میں کسی راوی کو نقل کرنے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ہے کیونکہ آپ نے مجاہیل کو بھی اس میں نقل کر رکھا ہے رہی بات اس روایت کو نقل کرنے کی تو آپ کی درج کردہ ہر روایت صحیح نہیں ہے نہ ہی اسے تلقی بالقبول حاصل ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے خاص مسئلہ کی اہمیت کے سبب اسے نقل روایت کیا ہے جیسا کہ باب سے واضح ہے۔

امام ابن حبان کی تائید جب تک کوئی ناقد امام نہیں کر دیتا ان کا صرف الثقات میں کسی راوی کو لانا فائدہ نہیں دے گا ہاں آپ صریح توثیق کریں تو اور معاملہ ہے۔ کسی بھی روایت کے قبولیت کے لئے راوی کا عادل وضابط ہونا سند کا متصل ہونا اور معلول وشاذ ہونے سے محفوظ ہونا ضروری ہے اور اس روایت میں ایک سے زائد علل ہیں، البتہ اس روایت کے بعض متن کی تائید بعض شواہد معتبرہ سے ہوتی ہے.

والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ