اسلام اور انسانی صحت

ْدین اسلام نے جو انسانی صحت کا لحاظ رکھا ہے ۔اس کی مثال دیگر ادیان میں ملنا محال ہے ۔کیونکہ دیگر ادیان میں ہم اس طرح کا اہتمام نہیں پاتے ہیں ۔ اِس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اَخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔دین اسلام نے انسانی جسم کو انسان کے پاس امانت بتایا ہے ۔اس کی حفاظت کرنا انسان کے اوپر لازمی قرار دیا ہے ۔دین اسلام نے انسان کو بھوک کی صورت میں کھانے پر ابھارا ہے ،پیاس کی صورت میں پینے پر ابھارا ہے،تھکاوٹ کی صورت میں آرام پر ابھارا ہے، گندگی کی صورت میں صفائی کی تعلیم دی ہے ،اور بیماری کی حالت میں علاج کی تعلیم دی ہے ۔ اس حد تک کہ جسم کے حقوق بھی اسلام نے گنوائے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، (صحيح البخاري : 1975)
تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملاقات کرنے والوں کا بھی تم پر حق ہے ۔
ہم چند چیزیں ذکر کریں گے کہ دین اسلام نے انسانی صحت کا کس قدر لحاظ رکھا ہے ۔

(1):صفائی کی تعلیم :
اسلام نے انسانوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيۡنَ وَيُحِبُّ الۡمُتَطَهِّرِيۡنَ ۞ (سورة البقرة : 222)
اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
طہارت و پاکیزگی کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اس قدر واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے آداب بھی سکھائے ہیں ۔
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ : قِيلَ لَهُ : لَقَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ . قَالَ : أَجَلْ، لَقَدْ نَهَانَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَلَّا نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، وَأَلَّا يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ عَظْمٍ. (صحيح مسلم :262)
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے کہا کہ تمہارے نبی نے تو تمہیں سبھی چیزیں سکھائی ہیں حتیٰ کہ پیشاب پاخانے کا طریقہ بھی! انہوں نے کہا: ہاں! بلاشبہ (اس میں ہمارے لیے کوئی عیب کی بات نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیشاب،پاخانے کے وقت قبلہ رخ ہونے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ ہم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم میں استنجاء نہ کرے اور گوبر اور ہڈی سے بھی استنجاء نہ کرے۔

(2):نجاسات کو انسانی معاشرے سے ہٹانے کی تعلیم:
دین اسلام اس قدر انسانی صحت کا لحاظ رکھا ہے ۔نجسات کو انسانی جسم سے، اور جہاں انسان کا رہن سہن ہے وہاں سے بھی نجاسات کو ہٹانے کی تعلیم دی ہے۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ : الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ “. (سنن ابي داود :26 حسنه الالباني)
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لعنت کے تین کاموں سے بچو۔“ (یعنی) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے،عین راستے میں یا (لوگوں کے) سائے میں۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ “. قَالُوا : وَمَا اللَّعَّانَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ “. (صحيح مسلم :269)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لعنت کے دو کاموں سے بچو صحابہ کرام نے عرض کیا وہ لعنت کے کام کرنے والے کون ہیں آپ ﷺ نے فرمایا جو لوگوں کے راستہ میں یا ان کے سایہ (کی جگہ) میں قضائے حاجت کرے یعنی اس کا یہ عمل موجب لعنت ہے۔

کیونکہ ان جگہوں (راستہ ، پانی وارد ہونے کی جگہ ، سایہ) پر نجاسات کا ہونا انسان کے لیے باعث مضر ہے ۔اور کئی امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے ۔

(3): نجاسات کو زائل کرنے میں سستی سے کام لینے والے کے لیے وعید:
دین اسلام نے انسانی جسم سے نجاسات کو زائل کرنے کی تعلیم دی ہے ۔جو شخص اس میں سستی کرتا ہے ۔اس کی سستی اس کے لیے عذاب کا سبب بن سکتا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، فَقَالَ : ” إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ : أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ “. ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ : ” لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا “.
(صحيح البخاري :218)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں پر گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔

(4): زیر ناف بالوں کی صفائی ‘ بغلوں کے بال اکھیڑنا ‘ ناخن تراشنا اور مونچھیں کتروانا کا حکم:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً : ” الْفِطْرَةُ خَمْسٌ – أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ – الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ “.
(صحيح البخاري :5889)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ پانچ چیزیں ختنہ کرانا، موئے زیر ناف مونڈنا، بغل کے بال نوچنا، ناخن ترشوانا اور مونچھ کم کرانا فطرت میں سے ہیں۔

(5):نماز سے پہلے وضوء کی تعلیم :
اسی طرح انسان کو نماز سے پہلے وضوء کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ جراثیم مسلط ہیں۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ‌
(سورة المائدة :6)
اے ایمان والو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) ۔

(6): دانتوں اور منہ کی صفائی :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں کی صفائی کے لیے تاکیدا مسواک کی تعلیم دی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ “.(سنن النسائي :5اسناده صحيح )
: ’’مسواک منہ کی صفائی و پاکیزگی اور رب تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَكْثَرْتُ عَلَيْكُمْ فِي السِّوَاكِ “.
(صحیح البخاری :888)
’’تحقیق میں نے مسواک کے بارے میں تمھیں بہت تاکید کی ہے۔‘‘

(7): انسانی جسم کو تکلیف دینے کی ممانعت :
دین اسلام نے انسانی جسم کو تکلیف اور نقصان دینے سے منع کیا ہے ۔
وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۞
(سورة البقرة :195)
اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو .

وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡـفُسَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا
(سورة النساء :29)
اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے۔

(8): انسانی صحت کی خاطر مضر چیزوں کی حرمت:
اسی طرح اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ درحقیقت انسانی صحت کے کیے مضر تھی ۔جن چیزوں کو حلال کیا ہے وہ انسانی صحت کے موافق تھی ۔اللہ تعالیٰ نے مردار ، بہتا ہوا خون اور خنزیر کو انسان کے اوپر حرام کیا ہے ۔کیونکہ یہ چیزیں انسانی صحت کے لیے نقصان دہ تھی۔دین اسلام نے سختی سے منع فرما دیا تاکہ انسان اُن کے مُضر اَثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
يٰٓاَ يُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ وَاشۡكُرُوۡا لِلّٰهِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِيَّاهُ تَعۡبُدُوۡنَ ۞
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡکُمُ الۡمَيۡتَةَ وَالدَّمَ وَلَحۡمَ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيۡرِ اللّٰهِ‌ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
( سورة البقرة : 172.173)
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو.اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے ہاں جو مجبور ہوجائے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے اور حد سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بےشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے

مردار:
جدید سائنس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مردار کے گوشت کھانے کی ممانعت کی حکمت کو واضح کر دیا۔ کچھ جانوروں، ،مردہ پرندوں اور خون کے بارے میں، اور کچھ مطالعات ترقی یافتہ ممالک میں کی گئیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ جس گوشت کو کھانا حرام ہے اس میں مختلف قسم کے بیکٹیریا کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے، اور خنزیر کا گوشت اس کی افزائش کا گھر ہوتا ہے۔ مردہ خلیوں کی تعداد، جو پکانے پر ختم نہیں ہوتے۔جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ ذبح کے عمل کے بغیر جراثیم مردہ کے گوشت کے اندر ہی پھنس کر رہ جاتے ہے،

خون:
خون پینے سے کئی خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔خون پینے سے جسم خراب ہو جاتا ہے۔۔اس سے منہ سے بدبو آتی ہے۔ یہ انسانی دل کی سختی، اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے رحم اور شفقت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔

خنزیر:
حالیہ طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ خنزیر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں جن میں سے اوّل الذکر مِرگی (epilepsy) جبکہ مؤخر الذکر ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے۔
شراب :
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شراب کو بھی حرام کیا ہے ۔شراب پینےسےمتعدد طبعی بیماریاں اور ذہنی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب نوشی بہت حد تک جگر، معدہ، انتڑیوں، تلی، خوراک کی نالی، دماغ اور دل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔

يٰٓايّها الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ (سورة المائدة : 90)

اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ

يَسۡــئَلُوۡنَكَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَالۡمَيۡسِرِ‌ؕ قُلۡ فِيۡهِمَآ اِثۡمٌ کَبِيۡرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثۡمُهُمَآ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِهِمَا ؕ وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الۡعَفۡوَ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَۙ ۞
(سورة البقرة : 219)
(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو۔

(9): انسانی صحت کی خاطر فرائض و عبادات میں رخصتوں کا حکم:
اس حد تک انسانی صحت کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ دینی فرائض اور عبادات کو ادا کرنے میں بھی تخفیفات اور رخصتیں رکھی گئی ہیں ۔جس طرح طہارت میں تیمم کو وضوء اور غسل کا بدل بنایا ہے ۔اگر انسان بیماری کی حالت میں پانی استعمال نہیں کرسکتا تو تیمم کر لے ۔
مَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّلٰـكِنۡ يُّرِيۡدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَ لِيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞ (سورة المائدة :6)
اللہ تعالیٰ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
سفر اور بیماری کی حالت میں روزے چھوڑنے کی رخصت دی گئی ہے ۔کہیں انسان مشقت محسوس نہ کرے ۔
يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۞
(سورة البقرة : 185)
اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔

(10): کھانے پینے میں اعتدال کی تعلیم:
کھانے اور پینے کے حوالے سے دین اسلام نے اعتدال کی تعلیم دی ہے ۔اس لیے کہ کھانے اور پینے میں اسراف کہیں انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو ۔یا یہ اسراف امراضِ کا سبب نہ بنے ۔
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞ (سورة الأعراف : 31)
کھاؤ اور پیؤ اور اسراف نہ کرو اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ، وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ، وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ “. (سنن الترمذی :2380 إسناده صحيح)
”کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا،آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے،ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے“

(11): علاج ومعالجہ کی تعلیم :
دین اسلام نے انسانی صحت کی حفاظت کے لیے علاج و معالجہ کی تعلیم دی ہے ۔
عَنْ أُسامَةَ بْنِ شَرِيكٍ ، قَالَ : قَالَتِ الْأَعْرَابُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَتَدَاوَى ؟ قَالَ : ” نَعَمْ. يَا عِبَادَ اللَّهِ، تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً – أَوْ قَالَ – دَوَاءً، إِلَّا دَاءً وَاحِدًا “. قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُوَ ؟ قَالَ : ” الْهَرَمُ “. (سنن الترمذی : 2038 اسناده صحيح )
سیدنا اسامہ بن شریک بیان کرتے ہیں کہ اعرابیوں (بدوؤں) نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم (بیماریوں کا) علاج کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں،اللہ کے بندو! علاج کرو،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور پیدا کی ہے،سوائے ایک بیماری کے“،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بڑھاپا“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ ؛ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ ”
(صحیح البخاری :3261)
بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے آتا ہے، اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو یا یہ فرمایا کہ زمزم کے پانی سے۔

عن عَائِشَةَ رضي الله عنها حَدَّثَتْنِي أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” إِنَّ هَذِهِ الْحَبَّةَ السَّوْدَاءَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا مِنَ السَّامِ “. قُلْتُ : وَمَا السَّامُ ؟ قَالَ : ” الْمَوْتُ “.
(صحيح البخاري : 5687)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کلونجی ہر بیماری کی دوا ہے سوا سام کے۔ میں نے عرض کیا سام کیا ہے؟ فرمایا کہ موت ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الْحِجَامَةُ ” (صحیح البخاری :5696)
خون کے دباؤ کا بہترین علاج جو تم کرتے ہو وہ سینگی لگوانا ہے۔

(12): نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھوں کو دھو لینے کا حکم:
مسلمان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب تک ہاتھ دھو نہ لئے جائیں برتن میں نہیں ڈالنے چاہئیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَإِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ ؛ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ “. (صحيح البخاري :162)
جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے، تو وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ فَلَا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ؛ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ “.(سنن ابي داود :103,104)
’’جب تم میں سے کوئی رات کو جاگے تو اپنا ہاتھ دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈبوئے حتیٰ کہ تین بار دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ (سوتے میں) کہاں کہاں لگتا رہا ہے۔‘‘

(13): برتن میں سانس لینے کی ممانعت:
برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اُس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اُس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاء
۔ جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے .

(14): برتنوں کو ڈھانپنے کا حکم:
برتنوں کو کھلے رکھنے سے جراثیم وغیرہ منتقل ہونے کا خدشہ ہے ۔اس لیے برتنوں کو ڈہانپنے کا حکم ہے تاکہ جراثیم وغیرہ منتقل نہ ہوں ۔
عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” أَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ إِذَا رَقَدْتُمْ، وَغَلِّقُوا الْأَبْوَابَ، وَأَوْكُوا الْأَسْقِيَةَ ، وَخَمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ “. وَأَحْسِبُهُ قَالَ : ” وَلَوْ بِعُودٍ تَعْرُضُهُ عَلَيْهِ “. (صحيح البخاري : 5624)
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم جب سونے لگو تو چراغ بجھا دو۔ دروازے بند کر دو، مشکوں کے منہ باندھ دو اور کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ دو۔ جابر ؓ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا خواہ لکڑی ہی کے ذریعہ سے ڈھک سکو جو اس کی چوڑائی میں بسم اللہ کہہ کر رکھ دی جائے۔
(15): کسی کے مشروب میں مکھی گر جائے تو اسے ڈبو کر نکال دینے کا حکم :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکھی کے بارے میں بتایا کہ جب وہ کسی پینے کی چیز میں گِر جائے تواس میں کچھ بھی اثر نہیں کرتی، بلکہ اس کو پورا ڈبو دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے ایک پَر میں بیماری ہوتی ہے اور یہ وہ پَر ہوتا ہے جسے وہ پانی میں ڈبوتی ہے اور دوسرے پَر میں اس بیماری کی شفاء ہوتی ہے۔ جو چیز کئی صدیوں سے مسلمان جانتے تھے، جدید طب نے اس کو درست ثابت کردیا ہے۔ مذہبِ اسلام کی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ ثُمَّ لِيَنْزِعْهُ ؛ فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً، وَالْأُخْرَى شِفَاءً “. (صحيح البخاري : 3320)
جب مکھی کسی کے پینے (یا کھانے کی چیز) میں پڑجائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور اس کے دوسرے (پر) میں شفاء ہوتی ہے۔

(16): جب کسی برتن میں کتا منہ ڈالے اس برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم:
جدید دور کی سائنس سے ثابت ہوچکا ہے برتن کو سات دفعہ دھونے اور مٹی سے مانجنے سے کتے کے جراثیم بالکل ختم ہو جاتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ، أُولَاهُنَّ بِالتُّرَابِ “. (صحيح مسلم : 279)
تمہارے برتن کو پاک کرنے کا طریقہ جب اس میں کتا منہ ڈال جائے یہ ہے کہ اس کو سات مرتبہ دھوؤ اور ان میں سے پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ۔

(17): متعدی امراض سے حفاظت:
وہ اَمراض جو متعدی ہیں اور اُن کے جراثیم تیزی سے ایک اِنسان سے دُوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اُن سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے۔ طاعون سے بچاؤ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ایسے خاص اَحکام بیان فرمائے جو عام بیماریوں کے لئے نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا:
إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ “.
(صحيح البخاري :5730)
جب تم وبا کے متعلق سنو کہ وہ کسی جگہ ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی ایسی جگہ وبا پھوٹ پڑے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے بھی مت بھاگو ۔

(18): پانی تین سانسوں میں پینے کا حکم:
دین اسلام نے پانی تین سانسوں میں پینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہ صحت افزا اور باعث ہضم ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا، وَيَقُولُ : ” إِنَّهُ أَرْوَى، وَأَبْرَأُ، وَأَمْرَأُ “. قَالَ أَنَسٌ : فَأَنَا أَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا. (صحيح مسلم : 2028)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پانی وغیرہ) پینے میں تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے سیر زیادہ ہوتی ہے اور پیاس بھی زیادہ بجھتی ہے اور پانی زیادہ ہضم ہوتا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بھی پینے میں تین مرتبہ سانس لیتا ہوں۔

(19): ورزش کی تعلیم:
خوراک اُس وقت مفید ثابت ہوتی ہے جب وہ اچھی طرح ہضم ہو جائے،اورغذا ہضم کرنے کے لیے محنت ،کھیل کود اور ورزش کی ضرورت ہے۔
کھیل کود اس وقت تک جائز ہے جب تک کہ وہ فرضی عبادات یا دنیوی فرائض سے غافل نہ ہو۔
جس طرح حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد میں کھیل رہے تھے ۔

عن عَائِشَةُ رضي الله عنها: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” دَعْهُمْ، أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ “. يَعْنِي مِنَ الْأَمْنِ. (صحيح البخاري : 3529)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو پردہ میں رکھے ہوئے ہیں اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو نیزوں کا کھیل مسجد میں کر رہے تھے۔ ابوبکر ؓ نے انہیں ڈانٹا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو، بنی ارفدہ تم بےفکر ہو کر کھیلو۔

انسان کے پاس صحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے ۔اس کی قدر کرنی چاہیے لیکن جب ہم ان مختلف پیچیدہ امراض اور مہلک بیماریوں کو دیکھتے ہیں تواحساس ہوتاہے کہ ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم اوربہت بڑااحسان ہے؛لیکن اس کے باوجود اکثرافراد اس نعمت عظمی کی قدر نہیں کرتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ؛ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ “. (صحيح البخاري : 6412)
دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔
وَمَا تَوۡفِيۡقِىۡۤ اِلَّا بِاللّٰهِ‌ ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَاِلَيۡهِ اُنِيۡبُ.

 

تحریر : افضل ظہیر جمالی

مدرس مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث گھمن آباد حیدرآباد