سوال (1635)

اقامت ہو رہی ہو تو مقتدی جو صف میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ کس ٹائم کھڑے ہوں کیونکہ ہمارے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ مقتدیوں کو “قد قامت الصلاۃ” کے الفاظ سن کر کھڑے ہونا چاہیے ؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

“إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي” [رواه البخاري : 637 ومسلم : 604]

«نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تم کھڑے نہ ہو ، یہاں تک مجھے دیکھ نہ لو»
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے مبارک سے نکل کر مصلے کی طرف جا رہے ہوتے تھے ، اسی اثناء میں اقامت شروع ہوجاتی تھی ، لوگ کھڑے ہونا شروع ہوجاتے تھے ، آپ مصلے پر پہنچتے تھے تو صف بننا شروع ہوجاتی تھی ، تمام دلائل کو سامنے رکھیں تو یہی تصور سامنے آتا ہے ، لہذا فقہاء کے مباحث اپنی جگہ پر ہیں ، مگر کوئی ایسی قیود و شرائط نہیں ملتی ہیں کہ “قد قامت الصلاۃ” پہ کھڑا ہونا ہے یا “حی علی الصلاۃ” پہ کھڑا ہونا ہے ، امام مصلے کی طرف جا رہا ہے ، آپ کھڑے ہو سکتے ہیں ، باقی آپ پہلے سے کھڑے نہ ہوں ، امام کا انتظار کرنا چاہیے ، خاص طور پہ جو پہلے سے بیٹھے ہوں وہ کھڑے نہ ہوں ، باقی کوئی وضوء کرکے آرہے ہیں ، ان کی الگ کیفیت ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے کافی اقوال ذکر کیے ہیں۔ بہرحال اس مسئلہ میں گنجائش ہے کہ مقتدی کسی بھی وقت اٹھے ، چاہے شروع میں ، چاہے درمیان میں ۔ سنت سے پتہ چلتا ہے کہ مؤذن جب اقامت کہہ دے اور امام مسجد ابھی تک نہیں آیا ہے تو مقتدی اس وقت تک نہ کھڑا ہو جب تک امام کو دیکھ نہ لے ۔ اس کی دلیل ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ۔
عن أبي قتادة رضي الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم

“إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي” [رواه البخاري : 637 ومسلم : 604]
وفي رواية لمسلم: “حَتَّى تَرَوْنِي قَدْ خَرَجْتُ”

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اقامت ہوجائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے دیکھ نہ لو ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے : یہاں تک کہ تم مجھے نکلتے ہوئے دیکھ لو۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سائل :
یعنی امام کے مصلے پر پہچنے سے پہلے اقامت شروع کی جا سکتی ہے ؟
جواب :
جی

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل :
امام کے انتظار میں یہ دلیل دینا کیسا رہے گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گردنیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں جھک جاتی تھیں؟
جواب :
یہ صرف عشاء کی نماز کے بارے میں ہے ، عمومی طور پہ بھی یہ قاعدہ ہے کہ مطلق نہیں آیا ہے ، یہ نہ قاعدہ کلیہ ہے اور نہ ہی عموم پر ہے ، باقی یوں کہیں کہ ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا تھا ، یا ایک آدھ دفعہ کی خبر ہے جو ہم تک پہنچی ہے ، باقی اس کو انتظار کرنے کے لیے حجت بنانا صحیح نہیں ہے ، میرے خیال میں اس میں افراط و تفریط کا معاملہ ہو رہا ہے ، باقی افہام و تفہیم سے امام و مقتدی دونوں بیلنس کریں ۔ باقی ایک دو منٹ کی تاخیر کی دونوں کی طرف سے جو کمی کوتاہی ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس میں سختی نہیں ہونی چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل :
امام کو مسجد کے اندر آ کر مصلے کے قریب بیٹھنا چاہیے نماز کے لیے یا کہ کس جگہ پر امام کو بیٹھنا چاہیے یا کس جگہ پر امام کو نماز کا انتظار کرنا چاہیے کہ نماز کا وقت ہو اور وہ نماز کے لیے مصلے پر جائے ؟
جواب :
یہ تو احناف کا دیکھنے میں آتا ہے کہ امام صاحب آتے ہیں ، بڑے مہذبانہ انداز میں جہاں اس کو نماز پڑھانی ہے، وہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں ، بہرحال یہ طریقہ بلا دلیل ہے ، آپ براہ راست مصلے پرآجائیں ، اقامت ہوجائے نماز پڑھائیں ٹھیک ہے ، ورنہ اگر ٹائم ہے تو امام کو بھی چاہیے کہ دو رکعات پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس بارے کتاب وسنت میں کچھ پابندی عائد نہیں کی گئی ہے ، اب امام چاہے تو اپنے گھر سے سنتیں پڑھ کر عین وقت تشریف لے آئیں یا قریبی کمرے سے نکل کر جماعت کے لیے آجائیں ، لہذا اس بارے امام کو شرعا پابند نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ فلاں طرح نماز کا انتظار کرے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سائل :
نماز کے لیے مقتدیوں کو امام کا کتنی دیر تک انتظار کرنا چاہیے ؟
جواب :
انتظار کے حوالے سے کوئی حد بندی نہیں ہے ، امام و مقتدی دونوں کو بیلنس کرنے کی ضرورت ہے ، ہمارے ہاں افراط و تفریط ہے ، امام صاحب کو بھی بروقت آجانا چاہیے ، ورنہ جو ٹائم متعین کیا ہے ، اس کا کیا فائدہ ہے ، مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ ایک آدھا منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو صبر کرلیں ، باقی اس کی حد بندی نہیں ہو سکتی ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ