سوال (3842)
الایمان بین الخوف والرجا ان الفاظ میں کوئی حدیث ہے؟
جواب
عربی میں رَجاءَ کے ایک سے زیادہ معانی اور مفاہیم بھی ملتے ہیں لیکن یہاں اس کے لیے لفظ رَجاءَ کا معنی اور مفہوم اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی اُمید جو کبھی یقین کی کیفیت تک جا پہنچتی ہے لیا جاتا ہے۔
رَجاءَ کا متضاد خوف ہے، جس کا معنی اور مفہوم تقریبا ہر کسی کے علم میں ہے کہ کسی چیز یا شخصیت کی طرف سے کسی نقصان، دُکھ، پریشانی، تکلیف وغیرہ کے ملنے کا اندیشہ جو کبھی یقین کی حد تک جا پہنچتا ہے۔
رَجاءَ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی اُمید، یا اُن دونوں، یا دونوں میں سے کسی ایک کے ملنے کا یقین، مُسلمانوں میں پائی جانی والی جانی پہچانی کیفیات ہیں۔
اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب کا خوف بھی سب کے لیے جانی پہچانی کیفیت ہے۔
سچے اور دُرُست اِیمان والا اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید، یا ان کے ملنے کا یقین، اور اللہ کی ناراضگی اور عذاب کے خوف کی کیفیات کے درمیان ہی رہتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی مُحبت میں اُس کا قُرب حاصل کرنے کی کوشش میں اُس کی عِبادت کرتا رہتا ہے.
اِیمان کو عمل کے ساتھ مشروط و مربوط قرار دیتے ہوئے، اور اِن مذکورہ بالا تین صِفات اور کیفیات، یعنی رَجاء، خوف ، اور مُحبت کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے فرمایا:
( أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدعُونَ يَبتَغُونَ إِلَى رَبِّهِم الوَسِيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجُونَ رَحمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحذُورًا)
“وہی ہیں ایمان والے جو اللہ کا قُرب حاصل کرنے کے لیے اسباب اختیار کرتے ہیں ، اور اللہ کی رحمت کے اُمید وار ہوتے ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک آپ کے رب کا عذاب ایسا ہے کہ اُس سے ڈرا ہی جانا چاہیے”۔
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم اس کا حوالہ مطلوب ہے؟
جواب: ان الفاظ سے حدیث نہیں ہے، مفہوم درست ہے اس کی وضاحت تفصیل سے کر دی ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ