سوال (1326)
“الا صلوا فی رحالکم” کس وقت کہا جائے گا ؟
جواب
“حي على الفلاح” کے بعد اور مکمل اذان کے بعد بھی کہا جاسکتا ہے نیز بارش کے اور سخت ترین سردی میں اعلان درست ہے ھذا ما عندی
فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ
سب سے بہتر یہ ہے کہ “حی علی الصلاۃ” اور “حی علی الفلاح” کے بجائے “ألا صلوا فی البیوت یا فی الرحال” کہا جائے کیونکہ بلا کر پھر یہ کہنا کہ مت آؤ، بے معنی ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، قَالَ: أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ الْمَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ. [صحيح البخاري : 632]
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا ألا صلوا في الرحال کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔
پھر اس حدیث کا کیا جواب ہے ؟
جواب :
اس حدیث میں یہ ہے کہ اذان کے آخر میں یہ الفاظ کہہ دے ۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
دونوں طرح صحیح ہے دوسری حدیث بھی صحیح بخاری میں ہے۔
قال: ابن عباس لمؤذنه في يوم مطير: إذا قلت أشهد أن محمدا رسول الله، فلا تقل حي على الصلاة، قل: «صلوا في بيوتكم»، فكأن الناس استنكروا، قال: فعله من هو خير مني [رواہ البخاری]
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ