سوال (507)

اَللّهمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا وَّاجْعَلْنیْ شَکُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا۔

شیخ محترم اس روایت کی سند کیسی ہے؟ اور یہ کہ اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو آیا یہ دعا کی جا سکتی ہے؟ کیونکہ اس میں صبر، شکر اور تواضع کی توفیق طلب کی گئی ہے۔

جواب

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ کئی ایک اہل علم نے اس کو ضعیف بلکہ منکر قرار دیا ہے۔
امام بزار رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں:

«حَدَّثنا عَمْرو بن مالك، قَال: حَدَّثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبد اللَّهِ أَبُو إِسْحَاقَ، قَال: حَدَّثنا عُقْبَةُ الأَصَمُّ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ بُرَيدة، عَن أَبيهِ، رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي ‌شَكُورًا وَاجْعَلْنِي ‌صَبُورًا وَاجْعَلْنِي فِي عَيْنَيَّ ‌صَغِيرًا وَفِي أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيرًا.
وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نعلَمُ أحَدًا رَوَاهُ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ بُرَيدة، عَن أَبيهِ إلَاّ عُقْبَةَ الأَصَمَّ، وهُو رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَيْسَ به بأس». [مسند البزار = البحر الزخار 10/ 315 برقم 4439]

امام ابن ابی حاتم نے اس حدیث سے متعلق اپنے والد محترم ابو حاتم سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:

«هَذَا حديثٌ منكرٌ لا يُعرَفُ، وعُقْبةُ ليِّنُ الْحَدِيث». [العلل لابن أبي حاتم 5/ 274، 5/ 365 ت الحميد]
علامہ ہیثمی رقمطراز ہیں:«رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَفِيهِ عُقْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَصَمُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَحَسَّنَ الْبَزَّارُ حَدِيثَهُ». [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 10/ 181]

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو منکر قرار دیا ہے، اور بزار وغیرہ جن اہل علم کی طرف اس ’تحسین’ منسوب ہے، اس کی توجیہ و تاویل کرنے کی کوشش کی ہے۔ [السلسلة الضعيفة 2/ 313 برقم 911]
روایت کے سندا ضعیف ہونے کے باوجود چونکہ اس کا معنی درست ہے اور الفاظ میں کوئی شرعی قباحت نہیں، اس وجہ سے کئی ایک ائمہ کرام نے اسے ادعیہ و اذکار کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ منذری نے الترغیب و الترہیب میں، شوکانی نے تحفۃ الذاکرین میں جبکہ مناوی اور صنعانی نے الجامع الصغیر کی شروحات میں اس دعا کے معنی و مفہوم کی تفصیلی شرح بیان کی ہے۔

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا وَّاجْعَلْنیْ شَکُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا۔

اے اللہ مجھے انتہائی صبر و شکر کرنے بنا اور مجھے اپنی نظر میں چھوٹا لیکن لوگوں کی نظروں میں بڑا بنا دے۔
شیخ شحاتۃ صقر خطباء و واعظین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

«أحيانًا تجد في الأحاديث الضعيفة أو الموضوعة بعض الأدعية أو الأذكار المطلقة – غير المحددة بزمان أو بمكان أو بحال – كدعاء: «اللهم اجعلني صبورًا، اللهم اجعلني شكورًا، اللهم اجعلني في عيني صغيرًا وفي أعين الناس كبيرًا» وكونها وردت في حديث لا يثبت ليس معناه عدم جواز الدعاء بها على الإطلاق. [دليل الواعظ إلى أدلة المواعظ 2/ 47،48]

بعض دفعہ ضعیف اور موضوع احادیث میں بعض عمومی ادعیہ و اذکار ہوتے ہیں، جن میں کسی خاص وقت یا جگہ یا موقعے کی تخصیص نہیں ہوتی جیسا کہ یہ “اللهم اجعلني صبورًا…” والی دعا ہے، اس کی سند کے غیر ثابت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اب یہ دعا مانگنا جائز نہیں ہے۔
شيخ بكر ابو زيد رحمہ الله فرماتے ہیں:
ہر وہ دعا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، ایسی دعا مانگنا پانچ شروط کے ساتھ جائز ہے:

1 – أن يتخير من الألفاظ أحسَنَها وأبْيَنَها؛ لأنه مقام مناجاة العبد لربه ومعبوده سبحانه وتعالى.
2 – أن تكون الألفاظ على وفق المعنى العربي.
3 – أن يكون الدعاء خاليًا من أي محذور شرعي، كالاستغاثة بغير الله، ونحو ذلك.
4 – أن يكون في باب الذكر والدعاء المطلق فلا يقيد بزمان أو حال أو مكان.
5 – أن لا يتخذ ذلك سنة يواظب عليها

یعنی دعا میں بہترین الفاظ کا انتخاب کیا جائے، ان کا معنی و مفہوم درست ہو، دعا شرک و بدعت وغیرہ جیسی شرعی قباحتوں سے خالی ہو، عمومی دعا ہو، کسی وقت، جگہ یا موقعے کے ساتھ خاص نہ کی جائے اور سب سے آخری بات اسے سنت اور مستحب کا درجہ دے کر اس کی پابندی نہ کی جائے۔ [تصحيح الدعاء ص42،43]
خلاصہ یہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ دعا کو حدیث یا سنت سمجھنا درست نہیں، چونکہ یہ ثابت نہیں، البتہ اس کے الفاظ بہترین ہیں، اس لیے اسے مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ